کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 172
کروں ’’حي علی الفلاح‘‘ کی آواز بھی تو سنتا ہوں، تم میں سے جو بھی’’حي علی الفلاح‘‘کی ندا سنے اسے اس پر لبیک کہنا چاہیے بھلے گھسٹ کر آئے، بھلے گھٹنوں کے بل آئے۔(حلیۃ الأولیاء:۲؍۱۱۳)
ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب سے کہا گیا کہ ایک شخص آپ کو قتل کرنے کے لیے ڈھونڈ رہا ہے، اس لیے آپ کہیں روپوش ہوجائیے، انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں میں اللہ کی قدرت سے باہر رہ سکتا ہوں؟ ان سے کہا گیا کہ اپنے گھر میں رہیے۔یہ سن کر انہوں نے کہا کہ میں ’’حي علی الفلاح‘‘ سنوں اور اس پر لبیک نہ کہوں؟(تفسیر قرطبی)
محمد بن حفیف شیرازی اپنے کمر درد سے بہت پریشان رہتے تھے بھر بھی اذان سن کر ایک آدمی کی پیٹھ پر سوار ہوکر مسجد آتے، ان سے کہا گیا کہ اتنا پریشان نہ ہوں(گھر میں پڑھ لیا کریں)انہوں نے جو جواب دیا اسے سنیے:
’’جب تم ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کی پکار سنو اور مجھے صف میں نہ پاؤ تو پھر قبرستان ہی میں مجھے تلاش کرنا‘‘(سیر اعلام النبلاء:۱۶؍۳۴۶)
اول وقت میں مسجد پہنچنے اور ڈھیر سارے اجر وثواب سے اپنے دامن مراد کو بھرنے کے لیے ہمارے اسلاف نے کیسی کیسی نادر مثالیں قائم کی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
ابن جریج حضرت عطاء بن ابی رباح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بیس سال تک مسجد کا فرش ہی حضرت عطاء کا بچھونا رہا، آپ بہترین طریقے سے نماز پڑھنے والوں میں سے تھے۔(سیر اعلام النبلاء:۵؍۸۴)
حضرت ربیعہ بن یزید فرماتے ہیں:چالیس سال سے میری عادت ہے کہ مؤذن کے ظہر کی اذان دینے سے پہلے میں مسجد میں موجود رہتا ہوں، الا یہ کہ میں بیمار رہوں یا سفر میں رہوں۔(ایضا:۵؍۲۳۹-۲۴۰)
امام التابعین حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں:پچاس سال سے میری تکبیر