کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 171
میں اس کی تیاری شروع کردیتا ہوں اور ہر فریضہ کی ادائیگی کے لیے مشتاق رہتا ہوں۔‘‘(حلیۃ الاولیاء:۲؍۹۵-۹۶)
مطر وراق کہتے ہیں کہ لوگ خرید وفروخت اور کاروبار میں لگے رہتے تھے لیکن جیسے ہی ا ن کے کان میں اذان کی آواز آتی اپنا ترازو چھوڑدیتے اور نمازکے لیے نکل پڑتے۔(تفسیرابن کثیر:۳؍۳۹۴-۳۹۵)
ابراہیم بن میمون مروزی سونار تھے، سونے کی اصلاح اور اس سے زیور بنانے کے لیے اوزار ان کے ہاتھ میں ہوتے، اگر اوزار(ہتھوڑا وغیرہ)سونا چاندی پیٹنے کے لیے اٹھاتے اور اسی اثنا میں ان کے کان میں اذان کی آواز سنائی دیتی تو ہتھوڑا فوراً رکھ دیتے۔
یہی لوگ در حقیقت اس آیت کا مصداق تھے جس میں کہا گیا ہے
﴿رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْْعٌ عَن ذِکْرِ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَاء الزَّکَاۃِ﴾(سورہ نور:۳۷)
یعنی ایسے لوگ جن کو تجارت اور خرید وفروخت ذکر الہی ، اقامت صلاۃ اور ادائے زکاۃ سے غافل نہیں کرتی۔
وہ لوگ مسجدوں میں اقامت سے پہلے بلکہ اذان سے بھی پہلے پہنچنے کو ترجیح دیتے تھے اور اسی کو اپنا معمول بناتے تھے۔
حضرت سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:اس بے ادب غلام کی طرح نہ رہو جو اپنے آقا کے پاس اس وقت تک نہیں جاتا جب تک وہ نہ بلائے ، تم نماز کے لیے اذان سے پہلے چلے جاؤ۔(التبصرۃ لابن الجوزی:۱؍۱۲۷)
آپ ہی کا یہ بھی فرمان ہے کہ نماز کی تعظیم کا تقاضا ہے کہ اقامت سے پہلے پہنچو۔(صفۃ الصفوۃ:۲؍۲۳۵)
حضرت ربیع بن خیثم کے جسم کا ایک حصہ مفلوج ہوچکا تھا، وہ دو آدمی کا سہارا لے کر اپنے محلے کی مسجد میں آتے۔لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ معذور ہیں،آپ کے لیے رخصت ہے، گھر میں پڑھ لیا کریں۔وہ جواب دیتے کہ آپ لوگوں کی بات صحیح ہے لیکن کیا