کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 14
اپنی بہادری کا سکہ جمانے کے لیے جہاد کرتا تھا، اس لیے ان تمام کو دنیا میں ان کا مقصد حاصل ہوگیا، آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں بچا، انجام کار یہ واصل جہنم ہوئے۔ (مسلم، ترمذی، نسائی مختصراً) قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:﴿مَن کَانَ یُرِیْدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لاَ یُبْخَسُونَ۔أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِیْہَا وَبَاطِلٌ مَّا کَانُواْ یَعْمَلُون﴾(سورہ ھود:۱۵-۱۶) یعنی جوشخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا خواستگار ہوتا ہے ہم اس کے کل اعمال(کا بدلہ)یہیں بھر پور پہنچادیتے ہیں، اور انہیں یہاں کوئی کمی نہیں کی جاتی، ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے وہاں کیاتھا سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔ علامہ ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘کی تشریح میں لکھا ہے کہ غیر اللہ کے لیے کیا جانے والا عمل کئی طرح کا ہوتا ہے، کبھی تو پورے طور پر وہ ریا ہی ہوتا ہے جیسا کہ منافقین کامعاملہ تھا، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَإِذَا قَامُواْ إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُواْ کُسَالَی یُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُونَ اللّٰهَ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾(سورہ نساء:۱۴۲)’’یعنی جب وہ(منافقین)نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں۔‘‘ ابن رجب آگے کہتے ہیں کہ ایسے کلی ریا کا صدور ایک مومن سے فرض نماز وروزہ میں عام طور پر نہیں ہوتا، صدقہ، حج واجب، اور دوسرے ایسے اعمال میں کبھی کبھی ہوتا ہے جن کا نفع متعدی ہوتا ہے۔۔۔۔اور کبھی کبھی عمل تو اللہ کے لیے ہوتا ہے مگر اس میں ریا کا دخل ہوتا ہے، اگر ریا کا دخل اصل عمل میں ہے تو نصوص صحیحہ اس عمل کے بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔اگر جہاد کی نیت میں ریا کے علاوہ اور کوئی نیت