کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 135
امام نووی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
نماز کی حالت میں سجدۂ تلاوت کرتے وقت مستحب یہ ہے کہ سجدہ کے لیے تکبیر کہے اور رفع یدین نہ کرے، اور سجدہ سے اٹھتے وقت بھی تکبیر کہے ، یہی صحیح اور مشہور ہے اور جمہور اسی کے قائل ہیں …
آگے لکھتے ہیں:سجدہ سے جب سر اٹھائے تو سیدھا کھڑا ہو جائے اور جلسۂ استراحت نہ کرے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، یہ ایک انوکھا مسئلہ ہے جس کی کم ہی لوگوں نے صراحت کی ہے ، صراحت کرنے والوں میں قاضی حسین ، امام بغوی اور امام رافعی ہیں۔۔۔۔پھر جب سجدۂ تلاوت سے سر اٹھائے تو ضروری ہے کہ سیدھے کھڑا ہو جائے، کھڑے ہونے کے بعد مستحب یہ ہے کہ کچھ پڑھے پھر رکوع کرے، کھڑاہونے کے بعد اگر بغیر کچھ پڑھے رکوع کرلے تو بھی جائز ہے۔(التبیان ، ص:۱۰۴ ، ۱۰۵)
سجدہ تلاوت کی دعاء
اس دعا کے تعلق سے دو روایتیں آتی ہیں:
۱- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں سجدہ تلاوت میں یہ دعا پڑھتے تھے:’’سَجَدَ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَ بَصَرَہٗ بِحَوْلِہٖ وَقُوَّتِہ‘‘(رواہ ابوداود ، والترمذی، والنسائی ، وقال الترمذی:ھذا حدیث حسن صحیح۔صحیح سنن أبی داود:۱۴۱۴)
شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے مرعاۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو حاکم اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے، اور ابن السکن نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اور اس کے آخر میں ’’ثلاثا‘‘کے لفظ کا ذکر کیا ہے۔حاکم نے ’’فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘‘ کا اضافہ ذکر کیا ہے ، بیہقی نے ’’خلقہ‘‘ کے بعد’’وصورہ‘‘ کا اضافہ ذکر کیا ہے۔(مرعاۃا لمفاتیح۳؍۴۴۷-۴۴۸)
علامہ البانی نے مشکاۃ کی تحقیق وتحشیہ میں اس حدیث پر یہ تعلیق لگائی ہے:
’’وأخرجہ الحاکم(۱؍۲۲۰)وقال:صحیح علی شرط الشیخین،