کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 134
کیفیت سجدہ
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس قرآن پڑھتے تھے اور جب سجدہ والی آیت پر آپ کا گذر ہو تا تو تکبیر کہتے ہوئے سجدہ کر تے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کر تے۔‘‘(ابوداؤد:۱۴۱۳ ، بیہقی)
اس حدیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جایا جائے گا، اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے بعد سجدہ سے اٹھتے ہوئے بھی تکبیر کہی جائے گی۔
لیکن علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عمر کی اس حدیث میں وارد تکبیر کے ذکر کو منکر قرار دیا ہے۔
اس تکبیر کے ساتھ رفع یدین بھی کیا جائے گا یا نہیں، اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، حنفیہ کے یہاں نماز یا غیر نماز کسی بھی حالت میں سجدہ تلاوت کے وقت رفع یدین نہیں ہے ، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک دونوں حالت میں سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین مشروع ہے۔
سجدہ تلاوت سے پہلے کھڑے ہو نے اور سجدہ تلاوت کے بعد تشہد اور تسلیم کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، حنفیہ کے یہاں تشہد اور تسلیم نہیں ہے، کھڑے ہونے کے بارے میں دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں، امام احمد سے سلام کے بارے میں دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں ، تشہد کی نفی منقول ہے ، امام شافعی کے اقوال بھی اس مسئلے میں مختلف ہیں۔
ان مسائل میں راجح مسلک کی طرف اشارہ کر تے ہوئے شیخ الحدیث رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ سجدہ تلاوت چاہے نماز میں ہو یا غیر نما ز میں اس میں تکبیر کے ساتھ رفع یدین مشروع نہیں ہے، ایسے ہی تشہد ، تسلیم اور قیام بھی مشروع نہیں ہے کیوں کہ اس کی معرفت شارع کی جانب سے ہی ہوگی ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی چیز منقول نہیں ہے، اور قیاس اس میں کفایت نہیں کرے گا’‘(مرعاۃ المفاتیح۳؍۴۴۵-۴۴۶)