کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 133
مرتبہ میں ہی اس نے سجدہ کر لیا توامام احمد ومالک وشافعی کے نزدیک اس کو دوبارہ بھی سجدہ کر نا پڑے گا، حنفیہ کے نزدیک پہلا سجدہ کافی ہوگا۔(فقہ السنۃ:۱؍۲۱۰-۲۱۱،والتبیان فی آداب حملۃ القرآن ، للنووی ص:۱۰۰)
شرائط
اس امر میں اختلاف ہے کہ طہارت ، ستر پوشی اور استقبال قبلہ وغیرہ جو کہ نماز کے لیے شرط ہیں کیا وہ سجدہ تلاوت کے لیے بھی شرط ہیں یا نہیں؟ جمہور اہل علم اشتراط ہی کے قائل ہیں ، ایک جماعت جس میں عبداللہ بن عمر ، شعبی اور ابو عبدالرحمن السلمی وغیرہ شامل ہیں اس اشتراط کی قائل نہیں ہے۔امام بخاری نے لکھا ہے کہ ’’کان ابن عمر یسجد علی غیر وضوء‘‘ مسند ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ابن عمر اپنی سواری سے اترتے ، استنجاء کر تے ، پھر سوار ہوتے، اور سجدہ والی آیت پڑھتے اور بغیروضو کے سجدہ کرتے ، امام شعبی نے اس مسئلے میں ابن عمر کی موافقت کی ہے۔ابو عبدالرحمن السلمی کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ سجدہ والی آیت پڑھتے پھر بغیر وضوء کے غیر قبلہ کی طرف بحالت سفر اشارہ سے سجدہ کرتے۔امام بیہقی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ ’’آدمی نہ سجدہ کر ے مگر اس حال میں کہ وہ پاک ہو۔‘‘
ابن عمر کے قول اور فعل میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ ان کے قول میں پاکی سے مراد طہارت کبریٰ ہے یا یہ کہ بغیر وضوء کے سجدہ مجبوری کی حالت میں ہے اور وضوء کے ساتھ اختیاری حالت میں ،یا یہ کہ وضوء کے ساتھ اولیٰ ہے اور بغیر وضوء کے جائز اور مباح۔
حضرت عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ حائضہ عورت جو سجدہ والی آیت سنتی ہے وہ سر کے اشارے سے سجدہ کر لے گی۔سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں۔
امام شوکانی اور امیر یمانی وغیرہ بھی طہارت کو شرط نہیں مانتے ، شیخ الحدیث مبارکپوری رحمۃاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عدم اشتراط ہی میرے نزدیک ارجح واقویٰ ہے ، لیکن عمل میں احتیاط کاتقاضا وہی ہے جو ابن عمر سے مروی ہے کہ آدمی طہارت ہی کی حالت میں سجدہ کرے۔(مرعاۃ المفاتیح ۳؍۴۳۱، فقہ السنہ:۱؍۲۰۹)