کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 131
امام احمد، امام شافعی اور امام مالک تینوں کے نزدیک سورہ حج میں دو سجدے ہیں، امام ابو حنیفہ کے نزدیک قرآنی سجدوں کی مجموعی تعداد چودہ ہے ، وہ سورہ حج کے دوسرے سجدے کا اعتبار نہیں کرتے، البتہ سورہ ’’ص‘‘ کے سجدے کا اعتبار کرتے ہیں۔
صاحب تحفۃ الاحوذی علیہ الرحمۃ نے امام احمد کے قول کے راجح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ ترمذی نے نقل کیا ہے ، امام مالک سے بھی اس کی ایک روایت ہے ، اور امام لیث وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔(مرعاۃ المفاتیح ۳؍۴۴۰)
واضح رہے کہ مطبوعہ مصاحف میں سجدہ والی آیت کے اختتام پر گول دائرے میں جہاں آیت کا نمبر لکھا ہوتا ہے اسی دائرے کے اوپر یا نیچے لفظ(السجدۃ)لکھا ہوا ہوتا ہے ، اور حاشیہ پر بھی یہی لفظ لکھا ہوتا ہے۔
سجدہ تلاوت کا استحباب کس کے لیے ہے؟
قرآن کی تلاوت کر نے والا اور اسی طرح وہ شخص جو قرآن سن رہا ہو دونوں کے لیے سجدہ تلاوت مسنون ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرسے مروی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ والی آیت پڑھتے تھے اس وقت ہم آپ کے پاس ہوتے تو آپ سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے ، اور کثرت ازدحام کی وجہ سے بسا اوقات ہم میں کا بعض آدمی سجدہ کے واسطے اپنی پیشانی زمین پر رکھنے کی جگہ نہیں پاتا تھا‘‘(بخاری و مسلم)
اس روایت سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ سننے والا اسی حالت میں سجدہ کر ے گا جب کہ پڑھنے والا سجدہ کرے، اگر پڑھنے والا سجدہ نہ کرے تو سننے والے کے لیے بھی یہ سجدہ مسنون نہ ہوگا۔فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے ، حنابلہ اور مالکیہ اسی کے قائل ہیں جبکہ شوافع اور احناف کا مسلک یہ ہے کہ پڑھنے والا بھلے سجدہ نہ کرے مگر سننے والا کرے گا۔شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ مبارکپوری علیہ الرحمہ نے مرعاۃ میں حنابلہ اور مالکیہ کے مسلک کو راجح قرار دیا ہے۔(مرعاۃ المفاتیح:۳؍۴۳۶)