کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 128
(تراویح کی نماز پڑھائی)اور اتنی دیر تک پڑھائی کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چھٹی رات(یعنی ۲۴ ویں شب میں)آپ نے ہم کو جماعت سے تراویح نہیں پڑھائی، جب پانچویں(یعنی ۲۵ ویں)رات آئی تو آپ نے ہم کو اتنی دیر تک تراویح کی نماز پڑھائی کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول!اگر آپ رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی مزید پڑھاتے تو بہتر ہوتا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر آدمی امام کے ساتھ اس وقت تک پڑھتا رہے جب تک امام فارغ نہیں ہوجاتا تو اس کو پوری رات کے قیام کا اجر ملے گا۔‘‘
پھر چوتھی(یعنی ۲۶ ویں)رات آپ نے تراویح نہیں پڑھائی، پھر تیسری(یعنی ستائیسویں)رات اپنے اہل اور بیویوں کو اکٹھا کیا اور ہم کو اتنی دیر تک تراویح کی نماز پڑھاتے رہے کہ ہمیں سحری کے فوت ہوجانے کا خوف ہوا، پھر رمضان کے بقیہ دنوں میں آپ نے ہمیں تراویح نہیں پڑھائی۔(احمد، ابوداود، ترمذی، نسائی، حاکم، بیہقی۔بسند صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ(رمضان میں)بیچ رات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور مسجد میں تہجد پڑھنے لگے، کچھ لوگوں نے آپ کی اقتدا کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، دوسرے روز لوگوں میں اس کا تذکرہ ہوا تو مزید لوگ رات میں آئے اور آپ کی امامت میں نماز تہجد ادا کی، پھر تیسرے روز اس کا اور چرچا ہوا اور اس رات مسجد میں لوگوں کی زیادہ بھیڑ ہوگئی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کی امامت میں نماز پڑھی گئی۔چوتھی رات اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ مسجد تنگ پڑ گئی، اس رات اللہ کے رسول نماز تہجد کے لیے مسجد میں نہیں آئے، بلکہ فجر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ تشریف لائے، نماز پڑھانے کے بعد آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور خطبہ پڑھا پھر فرمایا کہ لوگو!مسجد میں آپ کی موجودگی سے میں بے خبر نہیں تھا، لیکن(میں تہجد یا تراویح کے لیے نہیں نکلا)مجھے خوف تھا کہ کہیں یہ تراویح آپ لوگوں پر فرض نہ کردی جائے اور اس کے بعد اس کو نبھا نہ سکیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور معاملہ ایسے ہی رہا۔(یعنی آپ نے اس کے بعد باجماعت تراویح نہیں پڑھائی)
(صحیح بخاری)