کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 127
تراویح ’’ترویحۃ‘‘ کی جمع ہے، اور یہ ’’راحۃ‘‘ سے مرۃ کے لیے بنایا گیا ہے جیسے سلام سے تسلیمۃ، رمضان میں باجماعت قیام اللیل کو تراویح اس لیے کہتے ہیں کہ شروع میں لوگ یہ نماز پڑھتے تو ہر دو سلام کے درمیان یعنی ہر دو رکعت کے بعد تھوڑا آرام کرتے تھے۔(فتح الباری:۴؍۲۵۰)ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ ہر چار رکعت پر آرام کرنے کی وجہ سے اسیترویحہکہتے ہیں(مرعاۃ المفاتیح:۴؍۳۱۱)ایک متکلم فیہ حدیث میں بھی ’’یتروح‘‘ کا لفظ آیا ہے۔(ملاحظہ ہو مرجع سابق) عام دنوں میں تہجد کی جو فضیلت اور اہمیت ہے اس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔رمضان جسے نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے، اس ماہ مبارک میں عبادات کی فضیلت بھی دو چند ہو جاتی ہے، تہجدجیسی مقدس عبادت کا بھی مقام ومرتبہ رمضان میں بڑھ جاتا ہے، چنانچہ رمضان کے تہجد یعنی تراویح کی فضیلت اور اس کا ثواب بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَاناً وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ‘‘ (بخاری ومسلم) جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے گا اس کی پچھلی گناہیں معاف کردی جائیں گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں رمضان میں تراویح باجماعت کچھ دنوں ہی پڑھائی اور اس خوف سے اس پر مداومت نہیں کیا کہ کہیں امت پر فرض نہ کر دی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کا آنکھوں دیکھا حال: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان کا روزہ رکھا، آپ نے ہم کو تراویح نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے تو(۲۳ ویں شب میں)آپ نے ہم کو لے کر قیام کیا