کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 11
نیکی کر دریا میں ڈال
انسان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ نیکی کا ہر کام محض اللہ رب العزت کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کے لیے ہی کرے، اپنی نیکیوں پر لوگوں کی جانب سے تعریف وتعظیم کی تمنا، نام ونمود، شہرت طلبی یا دنیاوی مقاصد کا حصول وغیرہ وغیرہ ایسے مقاصد ہیں جو عبادتوں اور نیکیوں سے ان کی روح کو ختم کردیتے ہیں اور ہر قسم کے اجر وثواب سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
آیات واحادیث کی روشنی میں اہل علم کا کہنا ہے کہ بندے کا کوئی بھی عمل اللہ رب العزت کے یہاں اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب اس کے اندر دو شرطیں پائی جائیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے کیا جائے، دوسری شرط یہ کہ شرعی تعلیمات کے مطابق ہو، اختصاراً پہلے کو اخلاص اور دوسرے کو متابعت کہا جاتا ہے۔اخلاص کی ضد شرک اور ریا ونمود دونوں ہیں، اسی لیے ریاء ونمود کو احادیث نبویہ میں شرک اصغر اور شرک خفی کہا گیا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں جو تمہارے لیے کانا دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟ لوگوں نے کہا:ضرور بتلائیے۔آپ نے فرمایا:وہ شرک خفی ہے ، آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور یہ دیکھ لیتا ہے کہ کوئی اس کو دیکھتا ہے تو اپنی نماز میں بہتری پیدا کرتاہے۔‘‘(مسند احمد - صحیح الجامع الصغیر:۲۶۰۷)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ شرک خفی یہ ہے کہ آدمی کسی آدمی کی موجودگی کی وجہ سے کوئی عمل کرے۔‘‘
(حاکم -صحیح الجامع:۳۷۲۹)
خلوص کا فقدان یا کمی ایسی چیز ہے کہ اس کا پتہ آسانی سے نہیں لگتا، کیوں کہ انسان بظاہر نیک عمل اللہ ہی کے واسطے کرتا رہتا ہے مگر اس کا دل کبھی کبھی کچھ دوسرے مقاصد بھی رکھتا