کتاب: دروس و خطبات - صفحہ 100
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے بعد محرم کا روزہ رکھنا سب سے افضل ہے۔(مسلم) صحیح مسلم وغیرہ کی ایک دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئے دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی ملا لینا چاہیے۔ احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ان روزوں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اور اجر عظیم حاصل کرنا چاہیے، افسوس کہ ضعیف اور موضوع روایتوں میں مذکور روزوں کی مزعومہ سنت پر بڑی پابندی سے بعض لوگ عمل کرتے ہیں اور بخاری ومسلم جیسی حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں وارد حدیثوں میں بیان کی گئی فضیلتوں کے حصول سے ان کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ ۴ - بدعات ومحرمات سے اجتناب: محرم کی دسویں تاریخ ہی کو نواسۂ رسول حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تھا، جوبلاشبہ ایک الم انگیز واقعہ ہے، شیعہ حضرات اس واقعہ کو بنیاد بنا کر محرم کے تقریبا پورے مہینہ کو غم والم کا مہینہ قرار دیتے ہیں، محرم کا مہینہ شروع ہوتے ہی مجلسیں منعقد کرکے اس واقعہ کی تفصیلات سناتے ہیں، جن میں صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کو لعن طعن کرتے ہیں، اسی طرح حضرت حسین کا تعزیہ بناتے ہیں، اس سے منتیں مانگتے ہیں، شروع مہینہ ہی سے ماتم شروع کردیتے ہیں، سیاہ کپڑے پہنتے ہیں، نوحہ کرتے وگریبان چاک کرتے ہیں، محرم کو سوگ کا مہینہ قرار دے کر اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ، وغیرہ وغیرہ۔ واضح رہے کہ یہ تمام اعمال ورسومات خالص شیعی ہیں، اہل سنت کا ان سے کوئی تعلق نہیں، اہل حدیث ، دیوبندی وبریلوی تینوں فرقے ان اعمال کے بدعت ہونے اور حرام ہونے پر متفق ہیں، کیونکہ یہ تمام اعمال اسلامی تعلیمات کی رو سے حرام وممنوع ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو(کسی کی موت پر)منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے۔ صحابہ کرام کے لیے قرآن میں جگہ جگہ ’’رَضِیَ اللّٰهُ عَنہم ورضُوا عنہ‘‘ کہا گیا