کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 99
توحید اسماء و صفات شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  توحید اسماء و صفات : ....قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء و صفات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایمان لایا جائے اور انہیں صرف ایک اللہ کے لیے اس کے شایان شان ثابت کیا جائے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسماء و صفات میں اللہ تعالیٰ کی توحید بجا لائیں ۔ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسماء حسنی اور صفات عالیہ کوایسے ہی ثابت مانیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں ؛ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کئے ہیں ۔کیونکہ ان اسماء و صفات کی اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت ان کے رب سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اختصاص کا تقاضا کرتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَّہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ اور الله تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّا ، [١٩:٦٥] ’’ کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو۔‘‘ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ، ﴾ (الاخلاص: ۱۔ ۴) ’’ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔‘‘ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ﴾ [١٦:٧٤] ’’ تو اللہ کے لیے اس کی مانند نہ ٹھہراؤ۔‘‘ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ، ﴾ [البقرة 22] ’’پس تم اللہ کے لئے جان بوجھ کرشریک ( برابر والے) نہ ٹھہراؤ۔‘‘ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اچھے اچھے نام اور عالیشان صفات ہیں ۔انہیں ایسے ہی ثابت مانا جائے جیسے ان کا ورود ہوا ہے ۔ اور ان پر ایسےہی ایمان رکھا جائے جیسے یہ کتاب و سنت میں وارد ہوئی ہیں ۔ اس باب میں ہم قرآن اور حدیث سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہم اللہ تعالیٰ کے وہ اوصاف بیان کرتے ہیں جو اللہ