کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 96
الْحَسَنُ،))’’ اسی کی ساری نعمتیں ہیں اسی کا فضل اور ثنا ء حسن ہے۔‘‘یعنی جیسے وہ نعمتیں انعام کرنے میں اکیلا وحدہ لا شریک ہے؛ ایسے ہی وہ فضل و احسان میں بھی اکیلا ہے کوئی اس کا ساتھی اور ساجھی نہیں ۔ اوروہی اکیلا ہر اچھی تعریف اور ثنائے حسن کا عظیم الشان صفات اور اسماء حسنی کا مالک ہے۔ یہ اس کی توحید کے دلائل ہیں جو عبادت میں اس کی انفرادیت (توحید) بجالانے کو واجب کرتے ہیں ۔‘‘
اسی کی ساری نعمتیں ہیں اسی کا فضل و ثنا ء حسن ہے اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں ہم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔‘‘
٭ تیسری بار’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کے بعد فرمایا : (( مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ))’’ ہم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں ‘‘ اس میں بیان کیا جارہا ہے کہ کلمہ توحید ہی کلمہ اخلاص ہے۔ یعنی دین کو اللہ کے لیے خالص کرنا هہے؛ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ، ۙ ﴾ [البینة 98]
’’ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘
پس جب ہم اپنی زبانوں سے ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کہتے ہیں ؛ تو جس اخلاص پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے؛ اس پر اپنے دلوں سے عقیدہ اوریقین بھی رکھتے ہیں ؛ اس طرح کرنے سے ہی ہم سچے مؤمن ہوسکتے ہیں ۔
اس کلمہ میں جو مسلمانوں کے لیے ہر نماز کے بعد بطور ذکر کے دوہرانا مشروع کیا گیا ہے؛ آپ دیکھتے ہیں کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘کا مدلول بھی پایا جاتا ہے اوراس کے معانی کی تاکید بھی ملتی ہے۔ اور اس مدلول کی تحقیق بھی ہے جس پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے۔ اور اگر ہم چاہیں کہ کلمہ ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کی ایک جامع تعریف ان تینوں اذکار کی روشنی میں بطور خلاصہ کے نکال لائیں ؛ جو کہ نماز کے بعد کہنے مشروع ہیں ؛ تو وہ یہی معنی ہے: ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کریں ؛ اور وہ اکیلا وحدہ لاشریک ہے؛ اور دین کو اس کے لیے خالص کردیں ۔ یہ کلمہ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کی سب سے زیادہ جامع خوبصورت اور مکمل تعریف اور معنی ہے۔
خلاصہ کلام !ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ:یہ ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کاکلمہ صرف زبانی الفاظ و کلام نہیں ؛اور نہ ہی صرف ایسا کلام ہے جو بعض متعین اوقات یا حالات میں پڑھا جاتا ہے؛ بلکہ یہ اذکار انسان کی توحید کی تجدید سے عبارت ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کی توثیق ہے؛ کہ اس کی توحید کے حقائق بجالائیں گے اور دین کو اس کے لیے خالص کریں گے ۔ پس مسلمان اپنی صبح و شام میں یہ کلمات پڑھتا ہے؛ اور اپنی نمازوں میں بھی اور چلنے پھرنے میں بھی؛ اور دیگر تمام تر امور میں بھی۔ وہ توحید کے عہد نامے اور اس عظیم میثاق کی تجدید کرتا ہے کہ انسان دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرے گا ۔ اور خضوع و ذلت و انکساری کے ساتھ صرف اپنے رب کی عبادت بجا لائے گا۔پس وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہ پکارے اور نہ ہی اللہ کے علاوہ کسی سے سوال کرے نہ کسی سے مشکل کشائی چاہے؛ نہ ہی اللہ