کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 94
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ ﴾ [١٧:٢٣]
’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ﴾ [البینة 98]
’’ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ أَلَا لِلّٰهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾(الزمر 3)
’’خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے۔‘‘
پس توحید الوہیت ہی ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کا مطلب بھی ہے،جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔اسی لیے اس کلمہ کو کلمہء توحید بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا مدلول توحید ہے؛ اور یہ اس کا کلمہ ہے۔ اس کے بغیر توحید نہیں ہوتی جب تک اللہ کے علاوہ ہر ایک کی عبودیت کی نفی نہ کردی جائے؛ اور عبودت کو ہر معانی کے لحاظ سے صرف ایک اللہ کے لیے ثابت نہ کیا جائے۔ذلت و انکساری؛ رکوع اور سجدہ؛ دعا و پکار ؛ نذر و نیاز ؛ ذبح ؛ خوف اور امید اور ان کے علاوہ دیگر عبادات صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لیے یجالائی جائیں اور ان میں کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جائے۔ `
بس’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کااقرار اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جب تک اس کے مدلول یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کو سچ کر نہ دیکھایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی زبان سے اس کا اقرار کرے؛ مگر اپنے فعل سے اس کے خلاف کرے تو یہ کلمہ اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اور جو کوئی ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کہتا تو ہے؛ مگر پھر وہ غیر اللہ کو بھی پکارتا ہے؛ اس سے مشکل کشائی چاہتا ہے؛غیر اللہ سے مدد مطلب کرتا ہے؛ غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز اور ذبح کرتا ہے۔ تو ایسے انسان کو ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کاا قرار کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کیونکہ اس کے مدلول توحید کے حقائق پورے نہیں ہورہے۔ پس ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘کوئی ایسا کلمہ نہیں جس کا کوئی معنی ہی نہ ہو؛ اور ایسے الفاظ جن کا کوئی مدلول ہی نہ ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ۔ بلکہ یہ کلمہ انتہائی جلیل القدر معانی اور افضل ترین مقاصد اور عمدہ و اشرف اہداف پر مشتمل ہے؛ اور وہ ہے توحید اور اخلاص للہ۔
نصوص شریعت میں اس کلمہ کی رعایت اور اس کا اہتمام اور اس کی حفاظت کرنے کی ترغیب وارد ہوئی۔یہ کہ اسے صبح و شام کا؛ سوتے وقت کا؛اور نمازوں کے بعد کااور دیگر اوقات کا ورد بنایا جائے ۔یہ تمام اس لیے کہ ہے کہ توحید راسخ ہوجائے۔ اس کی ایک خوبصورت اورمفید اور انتہائی قیمتی مثال ملاحظہ کیجیے: ’’جب آپ نماز سے سلام پھیرتے ہیں ؛ تو کتنی بار اس کلمہ کو دھراتے ہیں ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول مسنون طریقہ کے مطابق یہ اذکار کیسے پڑھے جاتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد اس کلمہ کا ورد کرتے اوریوں کہتے: