کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 93
توحید الوہیت شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  توحید الوہیت:.... اس بات پر ایمان لانا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک چیز کا خالق اورہر چیز کا متصرف اورمعبود برحق ہے، اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔‘‘ اور یہی’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کا مطلب بھی ہے، کیونکہ اس کا معنیٰ ہے: اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ۔ لہٰذا تمام عبادتیں : نماز، روزہ وغیرہ صرف اللہ واحد کے لیے خالص کرنا واجب ہے اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے عبادت کا ایک معمولی حصہ بھی بجا لانا جائز نہیں ۔ شرح: توحید الوہیت کو توحید عبادت بھی کہا جاتاہے۔اور اس کاایک دوسرا نام توحید ارادی طلبی بہی ہے اور اسے توحید عملی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں ۔ اس توحید سے مراد دین کو اللہ تعالیٰ کے خالص کرنا ہے؛ پس اللہ کے علاوہ کسی کو نہ پکارا جائے؛ اللہ کے علاوہ کسی سے مشکل کشائی نہ چاہی جائے۔ توکل صرف ایک اللہ پر ہو؛ ذبح اور نذر و نیاز صرف ایک اللہ کے لیے ہو۔ عبادت کے کاموں میں سے کوئی بھی کام اس کے علاوہ کسی کے لیے نہ کیا جائے ؛ ارشاد فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لاَ شَرِيكَ لَہُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴾ (الانعام 162۔163) ’’ فرما دیجئے: بالیقین میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو کل جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب سےپہلا فرمانبردارہوں ۔‘‘ پس توحید الوہیت عبادت میں اللہ تعالیٰ کی انفرادیت اور دین کو خالص اس کے لیے کرنے اور شرک سے برأت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ، إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي ﴾(الزخرف 26.27) ’’ میں ان سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ بجز اس کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ، ﴾[١٦:٣٦] ’’اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ اللہ کوعبادت کرو اور شیطان سے بچو۔‘‘ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَئْاً ﴾[٤:٣٦] ’’ اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ۔‘‘