کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 9
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اِنَّ الْحَمْدَ لِلہِ، نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّھْدِہٖ اللّٰہُ فَلَامُضِلَّ لَہٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلا ھَادِيَ لَہٗ، وَأَشْھَدُ أَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ،وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ : اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب ’’ الدروس المہمة لعامة الأمة ‘‘ایک انتہائی عمدہ اور اہم رسالہ ہے ؛ جوکہ امام ِعلم؛ ناصح شیخ اور مربی اور مشفق جناب عزت مآب علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ؛ مفتی اعظم مملکت سعودی عرب ؛کی تألیف ہے ۔جو انہوں نے عام امت کے افراد کے لیے ترتیب دیا ہے تاکہ وہ عقیدہ ؛ اخلاق اور عبادت میں ان دینی امور کی تعلیم حاصل کرسکیں ؛ جن کی تعلیم ان کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اسے ایک انتہائی نفع بخش اور مفید انداز میں ترتیب دیا ہے۔ اور اس رسالے میں آپ رحمہ اللہ نے ضروریات دین اوروہ اہم ترین حتمی واجبات بیان کیے ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے۔ یہ کتاب عوام الناس کی تعلیم کے لیے ایک انتہائی مرتب اور عمدہ کتاب شمار ہوتی ہے جو کہ انہیں امور دین کی تعلیم دیتی ہے۔ اور ضروریات دین کی معرفت کرواتی ہے۔اور یہ بتاتی ہے کہ دین ؛ عقیدہ اور عبادت کے کون سے امور کی تعلیم حاصل کرنا ان پر واجب ہے۔  اس کتاب کا پہلا ہدف عوام الناس ہیں ؛ جس میں ان کے لیے خیرخواہی اور ضروریات دین کی تعلیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس کتاب کی شرح سے پہلے شروع میں اس سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کی شرح کا اسلوب انتہائی آسان اور واضح ہوگا؛ جو کہ ان کے ساتھ مناسب ہوگا جن کے لیے یہ کتاب لکھی گئی ہےاور وہ ہیں عوام۔ اس کتابچہ کو شیخ رحمہ اللہ نے بہت عمدگی کے ساتھ مفید عام بنایاہے۔ آپ نے خیر خواہی کی ؛ اور اس کا حق ادا کردیا۔ یہ کتابچہ شیخ رحمہ اللہ کی زندگی کے آخری ایام میں ان کی توجہ اور اہتمام کا محور و مرکز رہا ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جس سال آپ کا انتقال ہوا؛ اس سال یہ کتابچہ آپ کی زندگی میں آپ کی تصحیح اور تبدیلیوں کے ساتھ شائع ہوا۔بعض دروس کااضافہ کیا گیا؛ اور بعض دروس میں اضافہ کیا گیا؛ جو کہ بطور تکملہ تھے۔ اوربعض نئے دروس شامل کئے گئے۔ اور اس کی ترتیب میں بھی کچھ تبدیلی لائی گئی۔ میں نے اپنی اس شرح میں اس آخری طبع پر اعتماد کیا ہے جو کہ آپ کی وفات کے سال طبع ہوئی۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں شیخ کے نزدیک اس کتابچہ کی اہمیت کیا تھی؟ اور وہ اس کا کس قدر اہتمام کرتے تھے؟ __________________ اصل میں یہ شرح ان دروس سے عبارت ہے جو کہ میں نے مسجد نبوی میں درس دیے تھے؛ جن کی تعداد بارہ ہیں ۔ جوکہ چودہ سو پینتیس کے آخری مہینے میں دیے گئے تھے۔ جس میں بعد میں کچھ ردو بدل اور اضافات کرکے کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ واللہ الموفق۔