کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 85
جنت کی نعمتوں سے متعلق ہیں (ان سب پر ایمان کو شامل ہے)۔
آخرت پر ایمان کے درجات
’’ آخرت کے دن پر ایمان ‘‘کے دو درجے ہیں :
1۔ ایمان جازم:جس کے بغیر ’’ آخرت کے دن پر ایمان ‘‘قبول نہیں کیا جائے گا؛ بغیر کسی شک و شبہ کے پختہ اور جازم اعتقاد رکھے کہ آخرت کا ایک دن ہے جس میں حساب و کتاب (اورجزاء و سزا )ہونگے۔ پس جو کوئی اس میں شک یا تردد کرے وہ مؤمن نہیں ہوسکتا؛ اور اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جائےگا۔
2۔ پختہ ایمان: یعنی دل میں جگہ پکڑا ہوا گہرا مطمئن کردینے والا ایسا ایمان جس کو انسان اپنے تمام تر احوال و اعمال اور تمام امور میں یاد رکھے؛ وہ اس طرح کہ جب بھی وہ کوئی کام کرنا چاہے تو اسے ’’ آخرت کے دن پر ایمان ‘‘یاد آ جائے۔اور آپ دیکھیں کہ وہ انسان ہر وقت اس کے لیے مستعد اور آخرت کی تیاری کر رہا ہے۔ اسی لیے بلند درجات والے ؛ جنت کی نعمتیں پاکر کامیاب ہونے والے اپنے اس ایمان راسخ اور اس کے اثرات و نتائج کے متعلق خبردیتے ہوئے کہیں گے :
﴿ قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِيْنَ ، فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ ، ﴾ [٥٢:٢٧]
’’ بولے بیشک ہم اس سے پہلے اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے۔تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لُو کے عذاب سے بچالیا۔‘‘
بیشک یہ خوف اور ڈرانسان کو اس دن کی تیاری کے لیے مستعد کرتا ہے۔ جیساکہ فرمان الٰہی ہے:
﴿ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ بِيَمِيْنِہٖ ، فَيَقُوْلُ ہَاؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَہْ ، اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَہْ ، ﴾ [٦٩:٢٠]
’’ تو وہ جو اپنا نامہٴ اعمال دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا کہے گا لو میرے نامہٴ اعمال پڑھو، مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو پہنچوں گا۔‘‘
یعنی میرا دو ٹوک عقیدہ اور پختہ ایمان پر تھا کہ یقیناً مجھ سے حساب لیا جائے گا؛ اور مجھے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ؛ اور اس ایمان کا یہ ثمرہ تھا کہ میں نے اس دن کے لیے تیاری کی اور مستعد رہا۔
آخرت کے دن پر ایمان میں قیامت کی ان نشانیوں پر ایمان بھی شامل ہے؛ جو اس سے پہلے پیش آئیں گی؛ یہ نشایناں چھوٹی بھی ہیں بڑی بھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنْ تَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً ، فَقَدْ جَاءَ اَشْرَاطُہَا ، ﴾ [٤٧:١٨]
’’ تو کس کے انتظار میں ہیں مگر یہ کہ قیامت ان پر اچانک آجائے، کہ اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں ۔‘‘