کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 70
’’بیشک تم میں سے کسی ایک کے سینے میں ایمان ایسے ہی پرانا ہو جاتا ہے جیسے پرانا کپڑا بوسیدہ ہو جاتا ہے ؛ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید ہو جائے۔‘‘ [مستدرک 5 ؛ معجم الکبیر 84 ؛ صحیحہ 1585]
پس ہر رات میں ان دو آیات کی تلاوت سے ایمان کی تجدید اور استحضار ہوتا ہے؛ اور وہ ان عظیم اصولوں پر کیا گیا وعدہ یاد آتا ہے۔ خصوصاً جب انسان غور و فکر کے ساتھ ان آیات کی تلاوت کرے۔اوروہ کتنی ہی قابل قدر رات ہوگی جب مؤمن ان عظیم اصولوں پر تجدیدعہد کرتا ہوگا جن پر تمام دین کی عمارت قائم ہے۔
٭ اس عظیم سورت کے درمیان میں بھی ان اصولوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ، ﴾ [٢:١٧٧]
’’ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں ۔‘‘
یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان عظیم اصولوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ جتنی بھی آیات گزری ہیں ؛ جن میں اصول ایمان کا بیان ہے ؛ ان میں تقدیر پر ایمان کا بیان نہیں آیا؛ حالانکہ تقدیر پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان کو شامل ہے۔ اور تقدیر الٰہی پر ایمان کا ذکر دیگر کئی ایک آیات میں آیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ ، ﴾ [٥٤:٤٩]
’’ہم نے ہر چیز اندازہٴ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ، وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَہَدٰى ، ﴾[٨٧:٣]
’’جس نے بنایا پھر درست کیا۔اور جس نےاندازہ ٹھہرایا پھرہدایت دی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى ، ﴾[٢٠:٤٠]
’’ پھر اے موسیٰ تم (قابلیت رسالت کے) اندازے پر آ پہنچے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ فَقَدَرْنَا ، فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ ، ﴾[٧٧:٢٣]
’’پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ کرنے والے ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ ، ﴾ [٢:٢٠]