کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 69
پر ایمان کوشامل ہوتا ہے جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کئے ہیں ؛ یا جن کو رسولوں پر نازل ہونے والی وحی شامل ہے۔  اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ایمان لانے کا حکم دے رہے ہیں : ﴿ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ﴾ ’’ فرمادیجیے: ہم اللہ پر ایمان لائے۔‘‘ اور اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف خبر دی جاری ہے کہ یہ ساری باتیں ہوگئیں کیونکہ اہل ایمان نے وہ کچھ کر دیکھایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ پس سورت کے شروع میں ایمان لانے کا حکم آیا تھا؛ اور آخر میں خبر دی گئی ہے کہ اہل ایمان میں یہ بات پوری ہوگئی ہے؛ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ، ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہ ، لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ، ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ﴾ [٢:٢٨٥] ’’رسول اس کتاب پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔ سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ؛ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں فرق نہیں کرتے اور وہ (اللہ سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔ اے رب ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ اس جملہ میں ﴿وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ﴾ ’’ اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ‘‘میں آخرت پر ایمان کا اثبات ہے۔ پس یہ آیت اس سورت کے آخر میں آئی ہے جو ان عظیم الشان اصولوں پر مشتمل ہے۔ سورت بقرہ کی ابتداء بھی اصول ایمان سے ہوتی ہے؛ اور اختتام بھی اصول ایمان پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ، ۣ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ، ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ، ۡ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُخ﴾ [٢:٢٨٥] ’’سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اورکہتے ہیں کہ) ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں : ہم نے سنا اور قبول کیا۔ اے رب ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:’’ جس نے سورۃ البقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لیے کافی ہو جائیں گی۔‘‘[البخاري 5009 ؛ مسلم 808] اس حدیث مبارک میں ان آیات کی تلاوت کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور ہر رات ان کو بار بار دھرانے کا فائدہ ان عظیم الشان اصولوں پر اپنے ایمان کی تجدید ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد مشروع و ماثور اذکار کی تعلیم حاصل کرے؛ اوران سب کو اسی باب میں شمار کرے: ایمان کی تقویت و تجدید ۔اس لیے کہ ایمان کو تجدید کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: