کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 67
ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ ، ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ، ﴾ [٢:٥]
’’ہدایت ہے متقین کے لیے۔جو غیب پر ایمان لاتے اور نمازقائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کودیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ؛اورجو کتاب آپ پر نازل ہوئی اور جو کتابیں آپ سے قبل نازل ہوئیں ا ن پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات یافتہ ہیں ۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں دین کے عظیم الشان اصولوں اور ان اہم ترین مضبوط قواعد کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کی صفات کے طور پر بیان کی ہیں ۔ اس میں یہ بیان ہے کہ تقوی کی اساس جس پر یہ ساری عمارت قائم ہوتی ہے؛ اور وہ اصل جس پر صحیح ایمان و اعتقاد کی بنیاد رکھی جاتی ہے؛ وہ یہی عظیم اصول و ارکان ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی کہ: ﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾’’جو غیب پر ایمان لاتےہیں ‘‘ یعنی ہر اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ان سے غائب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں خبر دی ہے۔ یہ کامل مؤمن کے نمایاں ترین اوصاف میں سے ہے۔ حتی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ؛ کوئی بھی ایمان بالغیب سے افضل ایمان نہیں لایا۔‘‘[1]
ان جلیل القدر اور عظیم الشان اوصاف پر نظر ڈالیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کی صفات بیان کی ہیں ؛ فرمایا : ﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾’’جو غیب پر ایمان لاتےہیں ‘‘پس ان کا ایمان صرف حواس کی حد تک موقوف نہیں ہوتا ؛ کیونکہ بہت سے لوگ صرف اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جسے وہ اپنے حواس کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں ۔ حواس پانچ ہیں ؛ چکھنا؛ سونگھنا؛ سننا؛ دیکھنا ؛ اور چھونا۔ پس جو چیز ان حواس سے محسوس نہ ہو ؛ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اس کا انکار کرتے ہیں ؛ اس وجہ سے اس چیز کے منکر ٹھہرتے ہیں ۔ جبکہ مؤمن کے پاس یہ عظیم الشان اصول ہے؛ وہ ہر اس غائب چیزپر ایمان رکھتے ہیں جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اس جملہ میں تمام اصول ایمان داخل ہوتے ہیں ۔ ابن جریراور ابن کثیررحمہ اللہ نے نقل کیا ہے امام ابو عالیہ رحمہ اللہ اور ديگر ائمہ تفسیر فرماتے ہیں : ﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾’’جو غیب پر ایمان لاتےہیں ‘‘یعنی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ؛ اور اس کے فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘ [تفسير طبري 1؍242 ؛ تفسير ابن کثیر 1؍165]
یہ صفت وہ امتیازی خوبی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شرفیاب کیا ہے۔اس لیے کہ انہوں نے رسولوں کی تصدیق کی ہے؛ اوررسولوں کی طرف سے دی جانے والی ہر چیز کو قبول کرتے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے؛ اور اللہ تعالیٰ کی مراد پر؛ اور ایمان لائے رسول اللہ پر ؛اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہم تک پہنچا ہے؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد پر ۔‘‘[الرسالہ ص 3]
[1] أخرجہ سعید بن منصور فی سننہ برقم 180 ؛ کتاب الایمان لابن مندہ 209 ؛ تفسیر ابن ابی حاتم 66؛ مستدرک الحاکم 3033 ؛ وقال : ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ ؛ و وافقہ الذہبی۔