کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 66
نمایاں رہا ہے۔
ایمان کے اصول آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اور مربوط ہیں ؛ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ایمان کے کچھ اجزاء اس کے باقی حصوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اور ان میں بعض کا یا کسی ایک کا انکار کرنا باقی تمام کے انکار اور کفر کو لازم کرتا ہے۔ پس دین کا قیام ایمان کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ اوریہ اصول آپس میں یکجا ہیں ۔ پس جو کوئی ان اصولوں میں سے کچھ بھی ترک کردے؛ اس پر ایمان نہ لائے؛ گویا کہ اس نے تمام ایمان کو اور سارے اعمال کو باطل کردیا۔ اوروہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔ پہلے بھی گزر چکا کہ ایمان کے ان اصولوں کی مثال ایسے ہی ہے جیسے درخت کے لیے جڑیں ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر کسی درخت کی جڑیں کاٹ دی جائیں تو اس کاا نجام کیا ہو گا؟ یہی حالت ایمان کی ہے۔ جب ان عظیم اصولوں میں سے کسی ایک کا انکار کردیا جائے تو باقی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔
اس اصول کا بیان اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں وارد ہوا ہے۔ پس اس بنیاد پر جیسے انسان کا حصہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت اور فہم اور تأمل وتدبر میں زیادہ ہوگا؛ تو ان اصولوں میں بھی اس کا نصیب اورحصہ زیادہ اوربڑا ہوگا۔اس لیے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم اور سمجھ کے اعتبار سے لوگوں کے ایمان میں بھی فرق ہوتا ہے۔ پس جب انسان کی دل میں اس کی عظمت زیادہ ہوگی؛ اوران اصولوں پر اس کے شواہد اور دلائل و براہین مضبوط اور متمکن ہوں گے؛ جن کی وجہ سے شیطان کی طرف سے وارد شبہات کا ازالہ کیا جاسکے؛ تو اس کا ایمان بھی مضبوط ؛ راسخ اور متمکن (قرار پکڑے ہوئے ) ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِيْمَانًا ، فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ، وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ، ﴾ [٩:١٢٥]
’’ اور جب کوئی سورہ نازل ہوتی ہے تو بعض منافق پوچھتے کہ اس سورہ نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے ۔ سو جو ایمان والے ہیں ان کا ایمان تو زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے، ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کفر کی حالت۔‘‘
قرآن کریم نے ان اصولوں کو پوری طرح سے اجمالاً و تفصیلاً کافی و شافی بیان کردیا ہے۔ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی اس کا مکمل اورشافی بیان ہے۔ یہاں پر کچھ دیر ہمیں ان آیات کے ساتھ تدبر کے لیے رکنا ہوگا جن میں ان ایمانی اصولوں کا بیان ہوا ہے؛ خصوصاً جامع آیات کے ساتھ۔
٭ اس میں سب سے پہلا بیان سورت بقرہ میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ، الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ، وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ، وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ، اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي