کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 65
پس نیک اعمال اور اطاعات اور اللہ تعالیٰ کی قربت کے مختلف کام عمل کرنے والے سے اس وقت مقبول ہوتے ہیں جب وہ صحیح ایمان اور دل میں راسخ عقیدہ کی بنیاد پر قائم ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان اپنے عظیم تر اصولوں اور پختہ بنیادوں کی وجہ سے اعمال کی درستگی کرتا ہے۔ ا سکے بغیر اعمال مقبول نہیں ہوتے۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰى لَہَا سَعْيَہَا وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُہُمْ مَّشْكُوْرًا ، ﴾ [١٧:١٩] ’’اور جوکوئی آخرت چاہتا ہوا اور اس کے لیے کوشش بھی کرے اور وہ مومن بھی ہو تو ان کی کوشش لائق شکر ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً ، ﴾[١٦:٩٧] ’’جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہو؛ تو ہم اس کو پاک زندگی سے زندہ رکھیں گے۔‘‘ ان معانی میں آیات بہت زیادہ ہیں ۔  کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں کہ ایمان چھ ارکان پر قائم ہے۔ اس سے قبل ہم ’’رکن ‘‘ کا معنی معلوم کرچکے ہیں ؛ رکن کسی چیز کے اس مضبوط حصہ یا جانب کو کہتے ہیں جس کے بغیر اس چیز کا قائم رہنا نا ممکن ہو۔ پس ایمان کے ارکان اس کی بنیادیں اور اصول ہیں ؛ اور وہ ستون ہیں جن پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ان کے بغیر ایمان کا قیام ممکن نہیں ۔ یہ وہ چھ اصول ہیں جن کا بیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہوا ہے۔ یہ چھ ارکان بذیل ہیں :  اللہ تعالیٰ پر ایمان ؛ اس کے فرشتوں پر ایمان ؛ اس کی کتابوں پر ایمان ؛ اس کے رسولوں پر ایمان ؛ آخرت کے دن پر ایمان ؛ اور اچھی اوربری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان ۔ یہ وہ اصول ہیں جن پراول سے آخر تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا اتفاق رہا ہے؛ اور وہ ان امور کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں ۔ بلکہ انبیاء کی دعوت کا بنیادی نکتہ اور محور ان ہی امور پر قائم ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ انبیاء علیہم السلام علاتی [باپ شریک]بھائیوں (کی طرح) ہیں ۔ ان کے مسائل میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن دین سب کا ایک ہی ہے ۔ ‘‘[بخاري حدیث نمبر: 3443؛ مسلم 2365] یعنی ان کاعقیدہ ایک ہوتا ہے؛ اصول ایک ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ علماء کہتے ہیں : ’’بلا شک و شبہ امور اعتقاد اور دین کے اصول منسوخ نہیں ہوسکتے ۔نہ ہی ایک نبی کی شریعت میں ؛ اور نہ ہی ایک نبی سے دوسرے نبی کی نبوت میں ۔بلکہ نسخ (منسوخ ہونا) احکام اور شرائع میں ہوتا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ، ۭ﴾ [٥:٤٨] ’’ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے۔‘‘ جب کہ عقیدہ ایک ہی ہوتا ہے۔ جو کوئی قرآن پڑھے ؛ تو دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت اور اس کی اصولی بنیادوں کا ذکر کیا ہے؛ تو وہ دیکھے گا کہ انبیائے کرام ومرسلین علیہم السلام کی دعوت میں یہ نکتہ سب سے زیادہ