کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 64
﴿ يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ، ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ، بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ ہَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ، ﴾[٤٩:١٧] ’’ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں ۔ فرمادیں : اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ جتاؤ۔ بلکہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ؛ اگر تم سچے (مسلمان) ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ، ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ﴾۰ ’’ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ جس کو چاہتا ہے پاک کردیتا ہے۔‘‘ ان معانی میں آیات بہت زیادہ ہیں ۔  اس کی بنیاد ان عظیم الشان اصولوں اور پختہ قواعد پر مبنی ہے؛ جن کے بغیر ایمان کا قیام ممکن نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کے لیے یہ اصول ایسے ہی ہیں جیسے عمارت کے لیے سنگ بنیاد اور درخت کے لیے جڑیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی بھی دلالت کرتا ہے:  ﴿ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِ ، تُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا ، ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ﴾ (ابراہیم) ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے؛جیسے پاکیزہ درخت ہوجس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں ۔اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہو۔ اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے یہ مثال اپنے بندوں کے لیے بیان فرمائی ہے؛ اور انہیں اس میں غور و فکر اور تدبر(یعنی سوچ و بچار) کرنے کی دعوت دی ہے؛ جو کہ ایمان اور اس کے اصولوں کے بیان میں ہے؛ اور جس چیز پر ایمان قائم ہوتا ہے اور جو اس سے فروع نکلتی ہیں ۔اور جو کچھ اس کے ثمرات اور فوائد دنیا و آخرت میں اہل ایمان کو حاصل ہوتے ہیں ۔ اس آیت کو یہاں پر ذکر کرنے کا مقصد ﴿ اَصْلُہَا ثَابِتٌ﴾ کا بیان ہے۔پس درخت جڑوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا؛ ایسے ہی ایمان بھی اپنے اصولوں اور ارکان اور مبادیات کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور جب درخت کی جڑیں کاٹ دی جائیں تو وہ مر جاتا ہے؛ ایسے ہی جب ایمان کی بنیادی ہی نہ ہوں ؛ تو ایمان معدوم ہو جاتا ہے؛ اور کوئی بھی نیک عمل یا قربت کا کام فائدہ نہیں دیتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ، ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ، ﴾[٥:٥] ’’ اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘