کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 49
﴿ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ، ﴾ [٣٩:٣]
’’ دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے)۔‘‘
خالص اس صاف اور پاکیزہ چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی ملاوٹ یا شبہ یا دکھلاوا ؛ یادیگر کوئی ایسی بات نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان گرامی میں لغوی اعتبار سے ’’خالص ‘‘ کے معنی میں غور کریں ؛ ارشاد فرمایا :
﴿ وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ، ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِہٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ ، ﴾ [١٦ :٦٦]
’’اوربیشک تمہارے لیے چارپایوں میں بھی مقام عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو کے درمیان سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔‘‘
خَالِصاً :....یعنی پاک و صاف ؛ جس میں گوبر یا خون کا شائبہ تک نہیں ہوتا؛ حالانکہ وہ خون اور گوبر کے درمیان سے نکل کر آتا ہے ؛ لیکن انتہائی پاکیزگی اور پوری صفائی اور ستھرائی کے ساتھ ۔
پس اللہ رب العالمین کی عبادت بھی بالکل صاف ستھری اور خالص ہونی چاہیے۔ اور اس سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو؛ جب غیر کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت میں شریک بنا لیا جائے تو اس میں وہ اخلاص اور صفائی و پاکیزگی باقی نہیں رہتی؛ پس اس صورت میں عبادت قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمان الٰہی ہے:
(( أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنْ الشِّرْکِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِيہِ مَعِي غَيْرِي تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ))
’’ میں شرک والوں کے شرک سے بےپرواہوں جو آدمی میرے لئے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘
اخلاص کا منبع اور مقام ِ اصدار دل ہوتا ہے۔ اسی لیے مصنف حفظہ اللہ نے فرمایاہے:’’خلوص قلب سے۔‘‘
چہارم:.... ایسی سچائی جو جھوٹ کے منافی ہو۔یعنی سچے دل سے اس کلمہ کا اقرار کرے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہِ إِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰهُ عَلَی النَّارِ)) (البخاری 128 مسلم 32 ؛ بروایة أنس )
’’ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلمہ کے اقرار میں صداقت ؍سچائی ہونے کی شرط لگائی ہے۔ اور اس کلمہ میں سچائی کا مطلب یہ ہے کہ انسان زبان سے اسی چیز کا اقرار کرے جو اس کے دل میں موجود ہے۔ اگر انسان زبان سے اس کا اقرار