کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 48
جاتا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے یہ کہا:
((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰهِ لَا يَلْقَی اللّٰهَ بِہِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاکٍّ فِيہِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ )) (مسلم27؛ عن ابی ہریرہ)
’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ اللہ تعالیٰ سے ان دونوں باتوں کی شہادتوں کا یقین رکھتے ہوئے ملے گا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
یہاں پر یقین کی شرط لگائی گئی ہے جس سے شک کی نفی ہوتی ہے۔ ایسے ہی دوسری حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ ہَذَا الْحَائِطِ يَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ مُسْتَيْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ )) (مسلم 31)
’’ جس شخص سے باغ کے باہرملو ؛ وہ دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہو؛اس کو جنت کی بشارت دے دو۔‘‘
یہ ضروری ہے کہ یہ کلمہ دل کے یقین کے ساتھ زبان سے جاری ہو؛ اور انسان کو اس کی حقانیت میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ اور اگر اس کے ساتھ معمولی سا بھی شک و شبہ ہوا تو اس کے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ؛ بھلے انسان اس کلمہ کا کتنی مرتبہ تکرار ہی کیوں نہ کرلے۔
سوم:....ایسا اخلاص جو شرک اور ریا کاری کے منافی ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ، ۙ ﴾ [٩٨ :٥]
’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ اَلَا لِلّٰہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ، ﴾ [٣٩:٣]
’’ دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے)۔‘‘
صحیح بخاری میں ہے؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا ، جو سچے دل سے یا سچے جی سے لا إلہ إلا اللّٰہ کہے گا۔‘‘(البخاری 99)
یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاص کی شرط لگائی ہے۔یعنی اس کلمہ کا اقرار اخلاص قلب سے ہو؛ اس کلمہ کے اقرار اور دین کے اعمال سے مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: