کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 47
’’ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ، ۙ ﴾ [٩٨ :٥] ’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں ۔‘‘ یہ کہنا کہ:’’ جہالت کے منافی ہو ‘‘ اس کا مطلب ہےکہ اس کلمہ کا ایسا صحیح علم اور درست فہم ہو جو انسان کو جہالت اور جاہلین کے طرز سے باہر نکال لائے۔ اگر کوئی آدمی اس کلمہ کا اقرارتو کرے مگر اسے اس کے معانی و مدلول کا علم نہ ہو ؛ تو اس کا یہ اقرار اسے کوئی فائدہ نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ، ﴾ [٤٧:١٩] ’’ جان لیجیے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور اہل ایمان مرد و خواتین کے لیے بھی۔‘‘ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے علم سے شروع کیا جو کہ اصل بنیاد ہے۔ اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَ ، ﴾ [٤٣:٨٦] ’’ ہاں جو یقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں اوروہ علم بھی رکھتے ہوں ‘۔‘‘ اہل علم مفسرین کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں :﴿ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ﴾ ’’ ہاں جو حق کی گواہی دیں ‘‘ سے مراد ’’ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّه‘‘ہے؛ اور :﴿ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَ ، ﴾ ’’اوروہ علم بھی رکھتے ہوں ۔‘‘ یعنی وہ اس چیز کے معانی جانتے ہوں جس کی گواہی دے رہے ہیں ۔‘‘ [تفسير الطبری 20؍662 ؛ تفسیر بغوی 7؍ 224] صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَنْ مَاتَ وَہُوَ يَعْلَمُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ)) (مسلم 26؛ بروایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ )  ’’جو اس حال میں مر جائے کہ اسے یقینی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ؛ تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘  تو یہاں پر علم کے ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔  دوم:....ایسا یقین جو شک وشبہ کے منافی ہو۔یقین علم کی منتہاء اور کمال ہوتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:  ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا ﴾[٤٩ :١٥] ’’ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے۔‘‘ یعنی انہیں ایسا یقین ہو جس کے بعد و ہ کسی شک و شبہ کا شکار نہ ہوں ۔ایمان اور توحید میں یقین اور صحیح عقیدہ کا ہونا بہت ضروری ہے ؛ جس کے ساتھ دل بندھا ہوا ہو ۔اگر کوئی شخص متردد اور شک و شبہ کا شکار ہو؛ تو ایسا ایمان قبول نہیں کیا