کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 44
کے اقرار کو توڑنے والی اور اس کے مخالف ہیں ۔پس ’’ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّه‘‘کا کلمہ اپنا اقرارکرنے والے کو اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک اس کے معانی کی سمجھ نہ حاصل کرلی جائے اور اس کے مدلول کو سمجھ لیا جائے۔ اور اس کے اصل مقصود وغایت اللہ تعالیٰ کی توحید کو بجا لایا جائے۔ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کردیا جائے۔  وہ مشرکین جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہوئے؛ وہ ’’لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّه‘‘کے معانی سمجھتے تھے؛ لیکن انہوں نے اس کو قبول کرنے سے تکبر کیا ؛ (جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:) ﴿ اِنَّہُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ، ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ ، وَيَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِـہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ ، ﴾ [٣٧:٣٦] ’’ ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے اور کہتے: بھلا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔‘‘ وہ سمجھتےتھے کہ اس کلمہ کا مطلب اللہ کے علاوہ تمام معبودوں کی عبادت کو باطل قرار دینا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے تھے :  ﴿ اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًا ، ۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ، ﴾[٣٨:٥] ’’کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ یعنی یہ انتہائی تعجب کی بات ہے ۔ اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو ان بتوں کی عبادت پر ہی لگے رہنے کی وصیت کرنے لگے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓي اٰلِـہَتِكُمْ ، ۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ ، ﴾ [٣٨:٦] ’’ تو ان میں سے بڑے چل پڑے؛اور بولے: چلو اور اپنے معبودوں پرصبرکرو۔ بیشک یہی بات تو مقصود ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم صبر کا لباس نہیں اوڑھیں گے تو قریب ہے کہ یہ ہمیں ان معبودوں سے اور ان کی عبادت سے دورکردے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو ’’ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّه‘‘کے معانی کی سمجھ تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى ﴾ [٢:٢٥٦] ’’تو جو شخص بتوں کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ’’ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّه‘‘کو مضبوطی سے پکڑ رکھا؛ بخلاف اس متأخر زمانہ کے مشرکین کے ؛ انہوں نے زبان سے تو اس کا اقرار کرنے میں تکبر نہیں کیا؛ بلکہ وہ دن میں کئی کئی بار اس کلمہ کا ورد کرتے ہیں ؛ لیکن اپنے عقیدہ اور عمل سے اس کو توڑ ڈالتے ہیں ؛ (اس کے خلاف کرتے ہیں )۔ وہ قبروں والوں کو پکارتے ہیں ؛ ان سے مشکل کشائی چاہتے ہیں ؛ اور تنگی دور کرنے اور ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کے سامنے گریہ و زاری کرتے ہیں اور ان کی پناہ تلاش کرتے ہیں ۔ان کے نام پر ذبح کرتے ہیں اور نذریں مانتے ہیں اور اس طرح کے دیگر کام کرتے ہیں ۔ تو پھر اس کلمہ کا اقرار کرنا ان کو کیا فائدہ دے گا؟