کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 30
خاک آلود کنکریلے پتھر پھینکتے؛تو جب وہ کنکر ان میں سے کسی ایک پر گرتا تو وہ بہت بری طرح سے ہلاک ہو جاتا۔ فَجَــعَلَہُمْ :....’’تو ان کو ایسا کر دیا ‘‘ یعنی یہ جمگھٹ جو بیت اللہ کو ہدم کرنے کے ارادہ سے آیا تھا؛ ﴿ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ ، ﴾:’’جیسے کھایا ہوا بھس ‘‘وہ کھیتی جس پر جانور پل پڑیں ؛ اوراسے کھابھی لیں اور اپنے پاؤں سے روند بھی ڈالیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔اور یہ کہ انسان جتنی بھی مرضی چالیں چل لے؛ اور منصوبے تیار کر لے؛اللہ تعالیٰ بھی اس کی گھات میں ہوتے ہیں ؛ اور ایسے لوگوں کا عبرتناک انجام دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی اور گھاٹے کی شکل میں ہوتا ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی واقعہ فیل والے سال پیدا ہوئے جس سے سال یہ اتنا بڑا حادثہ پیش آیا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی جملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ سورت قریش بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ﴿ لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ، اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّـتَاۗءِ وَالصَّيْفِ ، فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ ، الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ، ۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ ، ﴾ ’’قریش کے مانوس کرنے کے سبب۔ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب ۔لوگوں کو چاہیے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں ۔جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امن بخشا۔‘‘ بہت سارے مفسرین کرام کہتے ہیں کہ آیت ﴿ لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ، ﴾: میں جار و مجرور اپنے سے پہلی سورت ؛ سورت فیل سے متعلق ہے۔ اس لیے کہ بلا شک و شبہ ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کی عظیم اور کامل قدرت اور بہت سخت پکڑ کی دلیل و علامت ہے۔ اس واقعہ کے بعد قریش کی ہیبت بڑھ گئی؛ چنانچہ وہ اپنی رہائش پر اور گرمیوں اور سردیوں کے تجارتی سفروں میں اطمینان و سکون محسوس کرنے لگے۔  اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ ، :....’’ ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب‘‘ یعنی جن نعمتوں سے یہ لوگ مالا مال ہورہے ہیں ؛ جسے امن ؛ وسعت بالی؛ اوریہ کہ ان کے تجارتی سفر بھی امن میں ہوتے ہیں ؛سردیوں میں وہ شام کی طرف سفر کرتے تھے؛اور گرمیوں میں یمن کی طرف۔ وہ ہر جگہ پر امن سے جاتے اور واپس آتے۔ تو یہ نعمتیں ان پر واجب کرتی تھیں کہ وہ ان کے انعام کرنے والے کا شکر ادا کریں اور صرف اسی کی عبادت کریں ؛ اسی لیے آگے فرمایا کہ: