کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 25
مقصد ہی ایک دوسرے پر اپنے مال کی کثرت ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اس کثرت کی چاہت نے تمہیں اس مقصد سے غافل کردیا جس کے لیے تم پیدا کیے گئے تھےاور اس کے حقائق کو پورا کرنے کے لیے تمہیں عدم سے وجود بخشا گیا تھا؛ اور وہ مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت۔بہت سارے لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کردوسری چیزوں میں مشغول ہوگئے ہیں ۔
حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ، :....’حتی کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ‘‘یعنی تمہاری غفلت اور مشغولیت کا یہی حال رہا؛ اور تم ان چیزوں میں مگن رہے حتی کہ تمہاری موت آگئی اور تمہیں قبروں میں داخل کردیا گیا۔ اکثر لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کوئی ایک اسی مال کی طلب میں تھک ہار کر ہانپ رہا ہوتا ہے کہ اسے موت آجاتی ہے۔ پھراسے قبر میں داخل کردیا جاتا ہے۔ قبروں میں داخل ہونے کو قبروں کی زیارت کا نام دیا گیا ہے؛ اس لیے کہ قبر دنیا اور آخرت کے مابین ایک برزخ ہے؛ اور دنیا سے آخرت کی طرف ایک گزر گاہ ہے؛ قبر میں مردہ ایسے ہی داخل ہوتا ہے جیسے زائر۔ کیونکہ وہ ہمیشہ قبر میں نہیں رہتا ۔ بلکہ یہ صرف زیارت ہی ہے پھر وہاں سے دار آخرت میں منتقل ہو جاتا ہے۔
كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ، :....’’ دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا‘‘ ﴿ كَلَّا ﴾:’’ دیکھو‘‘یہ لفظ اس حالت اور ان اوصاف پر زجر و توبیخ کے لیے ہے۔یعنی معاملہ ایسے نہیں ہے جیسے تم غفلت میں زیادہ مال بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہو۔عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا جب تم قبروں میں داخل کردیے جاؤ گے اور تم اچھے اور برے عمل کا انجام کار دیکھ لو گے۔
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ، :....’’پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا ‘‘ اس آیت میں پہلی آیت کی تاکید و تائید ہے تاکہ اس دن کی عظمت اور ہولناکی اور خطرہ بیان ہوسکے۔
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ ، :.... ’’ہر گز نہیں اگر تم یقینی طور پر جانتے ہوتے ‘‘ یعنی اگر انسان یقینی طور پر اس انجام کار کو جان لیتا؛ اور اسے اس ٹھکانے کا علم ہوتا تو زیادہ مال کی چاہت اسی کبھی بھی غافل نہ کرتی اور نہ ہی اس مقصد سے ہٹا کر دوسرے کاموں میں لگاتی جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے اور عدم سے وجود بخشا گیا ہے۔
لَتَرَوُنَّ الْجَحِيْمَ ، :....’’تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے‘‘ یعنی تم قیامت کے دن آؤگے تواس جہنم کودیکھ لو گے جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے تیار کر رکھی ہے۔
جحیم سے مراد : جہنم کی آگ ہے۔ جہنم کو بروز قیامت ارض محشر میں لایا جائے گا۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( يُؤْتَی بِجَہَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَہَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ يَجُرُّونَہَا))
’’جہنم کو لایا جائے گا اس دن جہنم کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی اور ہر ایک لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوئے