کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 242
وما بعد الموت کو یادکرنے کے لیے وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت کرنا مسنون ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّھَا تُذَکِّرُ المَوْتَ)) (مسلم 976) ’’قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘یہ حدیث امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے۔‘‘ قبروں کی اس زیارت کوشرعی زیارت شمار کیا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہوتی ہے؛ اور اس سے زندہ زائر اور زیارت کئے گئے میت دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ زندہ کو تین فوائد حاصل ہوتے ہیں :  اوّل:.... موت کی یاد: اس کے نتیجہ میں انسان نیک اعمال کرکے اس کی تیاری کرتا ہے۔ یہی حدیث شیخ نے یہاں پیش کی ہے: ((زُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّھَا تُذَکِّرُکم الآخرة)) ’’قبروں کی زیارت کیا کرو،یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘  دوم:.... زیارت کرنا: قبروں کی زیارت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اس پر اجر ملتا ہے۔ سوم:.... مسلمان مردوں کے ساتھ احسان؛ ان کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اور اس احسان پر اجر ملتا ہے۔  جہاں تک زیارت کئے گئے میت کا تعلق ہے؛ تو وہ بھی شرعی زیارت کے نتیجہ میں دعا اور اس کے ساتھ احسان سے مستفید ہوتا ہے۔ بلاشک و شبہ مردوں کو زندوں کی دعا سے فائدہ پہنچتا ہے۔ جہاں تک قبروں کی اس زیارت کا تعلق ہے جس میں مردوں کو پکارا جاتا ہے؛ اور مشکل کشائی کے لیے ان کے نام کی دہائی دی جاتی ہے؛ اور ان سے حاجات برآوری طلب کی جاتی ہے؛ تو واضح رہے کہ ایسی زیارت سے مردے کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔اور زندہ کو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے ایک ناجائز کام کیاہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے؛ اور اس سے مُردہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔کیونکہ اس زائر نے اس میت کے لیے تو دعا نہیں کی ؛ بلکہ الٹا اللہ کو چھوڑ کر اس سے ہی دعا کرنے لگ گیا۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ منسک ة‘‘ مردوں کی اس نیت سے زیارت کرنا کہ ان کی قبروں کے پاس دعا کی جائے؛ یا قبروں پر اعتکاف کیا جائے؛ یا ان سے ضروریات پوری کرنے کا سوال کیا جائے؛ یا مریضوں کی شفا یابی ؛یا ان کے وسیلہ سے؛ اور ان کے مقام ومرتبہ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا یا اس طرح کے دیگر کام کرنا؛ یہ بدعت پر مبنی بری زیارت ہے؛ جس کو اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں ٹھہرایا ۔ اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا سلف صالحین میں سے کسی نے ایسا کیا ہے۔ بلکہ یہ وہی بری بات ہے جس سے منع کیا گیا ہے؛ ارشاد فرمایا:  ((روزروا الْقُبُورَ وَلَا تَقُولُوا ہُجْرًا)) (سنن نسائي 2033 ح مسند أحمد 23052 ؛ صححه الالباني الارواء3؍226)  ’’ قبروں کی زیارت کرو ؛ اور بری بات نہ کہو۔‘‘  مذکورہ بالا امور میں بدعات جمع ہیں ؛ مگر ان بدعات کے مراتب مختلف ہیں ۔ ان میں سے بعض صرف بدعت ہیں