کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 239
مزید تنگی اور تھکاوٹ اور مشغولیت کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی مطلق طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے میت پر کوئی ایسی مجلس قائم کی ہو؛ نہ ہی وفات کے وقت اور نہ ہی ایک ہفتے کے بعد اور نہ ہی چالیس دن کے بعد اور نہ ہی وفات کے ایک سال بعد۔ ایسا کرنا بدعت ہے؛ اس کو چھوڑنا؛ اس سے انکار کرنا اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنا واجب ہے۔کیونکہ ایسا کرنا دین میں بدعت اور اہل جاہلیت کے ساتھ مشابہت ہے۔‘‘ (مجموع فتاوی 2؍356۔)
’’البتہ اہل میت کے لیے یا ان کے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے مشروع ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانا تیارکریں ۔ کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک شام میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر ملی تو آپ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ:’’ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا بنائیں ‘‘ اور فرمایا: ’’ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے انہیں غافل کر دیا ہے۔‘‘حدیث میں ہے:
(( اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ أَتَاہُمْ مَا يَشْغَلُہُمْ أَوْ أَمْرٌ يَشْغَلُہُمْ))[1]
’’ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا پکاؤ کیونکہ انہیں ایک آنے والے حادثہ نے سے روک رکھا ہے۔‘‘
اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے پڑوسی یا قرابت دار ان کے لیے کھانا تیار کریں ؛ اور جب میت کے گھر والوں کے یہاں ہدیہ کے طور پر جو کھانا آیا ہو،وہ ان کی حاجت سے زیادہ ہو؛اور وہ اس کھانے پر اپنے کچھ پڑوسیوں وغیرہ کو یا فقراء کو بھی بلا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اسے ایک تقریب یا رسم کی شکل نہ دیدی جائے۔ کہ میت اہل خانہ کھانا تیار کرنے لگ جائیں ۔ اورپھر اس پر لوگوں کو جمع کریں ؛ اس کی کوئی اصل نہیں ؛ یہ عہد جاہلیت کا کام ہے۔
یازدہم :سوگ کی مدت
٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’عورت کے لیے کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ، البتہ اپنے شوہر کے انتقال پر چار مہینہ دس دن سوگ منانا واجب ہے، لیکن اگر عورت حاملہ ہو تو ایسی صورت میں حمل جننے تک سوگ منائے گی، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔البتہ مرد کے لیے اپنے کسی عزیز وغیرہ کے انتقال پر سوگ منانا جائز نہیں ۔
شرح:
یہ گیارہواں مسئلہ میت کے سوگ سے متعلق ہے۔آپ فرماتے ہیں :
’’عورت کے لیے کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ، البتہ اپنے شوہر کے انتقال پر چار مہینہ
[1] (أحمد 1751 ؛ أبو داؤد 3132 ؛ ابن ماجہ 1610 ؛ سنن الترمذی 998) امام ترمذی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ یہ حدیث حسن صحیح ہے بعض اہل علم اسے مستحب گردانتے ہیں کہ میت کے گھر والوں کے پاس کوئی نہ کوئی چیز بھیجی جائے کیونکہ وہ مصیبت میں مشغول ہوتے ہیں امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔(اس حدیث کو شیخ البانی حفظہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔صحیح الجامع 1015 ۔ شیخ رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے)۔