کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 238
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر نماز جنازہ پڑھنے سے متعلق چھ احادیث مروی ہیں ؛ اور سبھی حسن درجہ کی ہیں ۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ نے قبر پر نماز پڑھنے کی آخری حد ایک ماہ بتائی ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں منقول یہ آخری حد ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے بتایا ہے کہ: ’’ اتنی مدت جس میں میت ابھی گل نہ گئی ہو۔‘‘ اور امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ اس سے منع کرتے ہیں ؛ ہاں اگر میت کا ولی غائب ہو ؛ تو اس کے لیے یہ استثناء ہے۔‘‘(زاد المعاد 1؍493) دہم:میت کے گھر میں کھانا ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میت کے گھر والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے لیے کھانا بنائیں ۔ صحابی جلیل جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے گھر جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو ہم لوگ نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘ (اسے امام احمد نے بسند حسن روایت کیا ہے). البتہ اہل میت کے لیے یا ان کے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے مشروع ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانا تیارکریں ، کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک شام میں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر ملی تو آپ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا بنائیں اور فرمایا: ’’ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے انہیں غافل کر دیا ہے۔‘‘ میت کے گھر والوں کے یہاں ہدیہ کے طور پر جو کھانا آیا ہو، اس کھانے پر وہ اپنے پڑوسیوں وغیرہ کو بلا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اور ہمارے علم کے مطابق اس سلسلہ میں وقت کی شرعاً کوئی تحدید نہیں ہے۔‘‘ شرح: ٭ یہاں پر شیخ رحمہ اللہ یہ بیان کرتے ہیں کہ: میت کے اہل خانہ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میت پر جنازہ اور اس کی تدفین کے بعد اور آنے والے دنوں میں لوگوں کو جمع کریں اور ان کے لیے کھانا تیار کریں ۔سلف صالحین رحمہم اللہ ایسا کرنے کو نوحہ گری شمار کرتے تھے۔ پھر آپ نے اس سلسلہ میں جلیل القدر صحابی حضرت جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے؛ آپ فرماتے ہیں : (( کُنَّا نَرَی الِاجْتِمَاعَ إِلَی أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنْ النِّيَاحَةِ)) ’’میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے گھر جمع ہونے اور (ان کا ہمارے لیے) کھانا تیار کرنے کو ہم لوگ نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘ ( احمد 6905 ؛ ابن ماجہ 1612 ؛ أحکام الجنائز ص 167؍ بسند حسن ). ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میت کے اہل خانہ کی طرف سے لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا؛ خواہ وہ وراثت کے مال میں سے ہو؛ میت کے تیسرے حصہ میں سے؛ یا پھر کسی دوسرے انسان کی طرف سے؛ تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔بے شک ایسا کرنا سنت کے خلاف اور جاہلیت کا کام ہے۔اس لیے بھی اس میں اہل خانہ کے لیے اس مصیبت کے ساتھ