کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 237
٭ ’’ اگر کسی کو جنازہ کی نماز نہیں مل سکی تو اس کے لیے دفن کے بعد نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھی یا ایک جوان تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے متعلق سوال کیا۔ صحابہ نے عرض کیا :’’ اس کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟۔‘‘ فرمایا :’’گویا کہ انہوں نے اس کے معاملہ کو اہمیت نہ دی۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے اس کی قبر کا بتاؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی پھر فرمایا: ((إِنَّ ہَذِہِ الْقُبُورَ مَمْلُوئَةٌ ظُلْمَةً عَلَی أَهْلِہَا وَإِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنَوِّرُہَا لَہُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْہِمْ)) (مسلم ) ’’یقیناً یہ قبریں ان پر اندھیرے سے بھرئی ہوئی تھیں بےشک اللہ ان کو میری نماز کی وجہ سے روشن کر دے گا۔‘‘ اور دفن کرنے کے بعد بھی نماز کا طریقہ وہی ہے جو دفن کرنے سے پہلے ہے۔  ٭ ’’ اس شرط پر کہ دفن کے بعد سے لے کر تقریباً ایک مہینے کے اندر اندر نمازِ جنازہ پڑھ لیا جائے، اگر ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہو تو قبر پر نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ میت کو دفن کر دینے کے ایک مہینہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر نمازِ جنازہ پڑھی ہو۔‘‘ امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں : ’’ قبر پر ایک ماہ تک نماز پڑھی جاسکتی ہے؛ اور فرماتے ہیں : کہ ہم اکثر ابن مسیب رحمہ اللہ کے متعلق سنتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سعد بن عبادہ کی قبر پر ایک ماہ بعد نماز پڑھائی۔‘‘[1] ابن قیم حفظہ اللہ فرماتے ہیں :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ سے کسی کی نماز جنازہ چھوٹ جاتی تو آپ اس کی قبر پرجنازہ پڑھ لیتے؛ کبھی ایک رات بعد ؛ کبھی تین راتوں بعد؛ اور ایک روایت میں ایک ماہ بعد بھی ہے۔ لیکن اس میں کوئی وقت متعین نہیں ۔ امام احمد حفظہ اللہ فرماتے ہیں : قبر پر نماز جنازہ پڑھنے میں کون شک کرسکتا ہے؟
[1] (الترمذی 1038 ؍مرسل) پوری روایت اس طرح ہے:سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ام سعد کا انتقال ہو گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تھے، جب آپ تشریف لائے تو ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس واقعہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔‘‘ سنن ترمذی میں ہے: ابن مسیب فرماتے ہیں : ’’ مجھ سے اس آدمی نے بیان کیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اس نے ایک اکیلی قبر دیکھی۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی صف بندی فرمائی اور نماز جنازہ پڑھائی۔‘‘ شعبی سے پوچھا گیا کہ وہ کون ہے جس نے آپ کو یہ واقعہ سنایا؟ انہوں نے فرمایا کہ:’’ حضرت ابن عباس۔‘‘ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اکثر صحابہ کرام اور دیگر علماء کا اس پر عمل ہے امام شافعی، احمد اور اسحاق کا یہ قول ہے۔ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ قبر پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام مالک کا بھی ہی قول ہے۔ ابن مبارک فرماتے ہیں کہ اگر میت کو نماز جنازہ پڑھے بغیر دفن کیا جائے تو قبر پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔ ابن مبارک کے نزدیک قبر پر ایک ماہ تک نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سعید بن مسیب سے اکثر سنا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام سعد بن عبادہ کی قبر پر ایک ماہ بعد نماز جنازہ پڑھی۔‘‘ قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 ؍ 183 ) ، برقم (736 ؍ 1 و 737)