کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 234
ہشتم: دفن کرنے کا طریقہ ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’مشروع یہ ہے کہ آدمی کی کمر تک قبر گہری کی جائے اور اس میں قبلہ کی طرف لحد بنائی جائے، میت کو لحد میں داہنے پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے کفن کی گرہیں کھول کر چھوڑ دی جائیں انہیں نکالا نہ جائے، میت خواہ مرد ہو یا عورت اس کا چہرہ نہ کھولاجائے، پھر لحد کے اوپر سے کچی اینٹیں رکھ کر مٹی سے لیپ کر دیا جائے تاکہ اینٹیں مضبوطی پکڑ لیں اور میت تک مٹی نہ جانے دیں ، اگر اینٹیں نہ مل سکیں تو ان کی جگہ تختے یا پتھر یا لکڑی لگا دی جائے جو لحد میں مٹی گرنے سے بچاؤ کرے، پھر اس پر مٹی ڈالی جائے، مٹی ڈالتے وقت ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ پڑھنا مستحب ہے۔ مٹی ڈالنے کے بعد قبر ایک بالشت کے برابر اونچی کر دی جائے اور اگر دستیاب ہو تو قبر کے اوپر کنکریاں ڈال دی جائیں اور پانی چھڑک دیا جائے۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو چاہیے کہ دفن کرنے کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہوں اور میت کے لیے دعا کریں ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہوتے اور فرماتے: ’’اپنے بھائی کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ شرح: ٭ شیخ رحمہ اللہ یہاں سے اب ’’ تدفین ‘‘ سے متعلق بیان کریں گے:  ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مشروع یہ ہے کہ آدمی کی کمر تک قبر گہری کی جائے‘‘ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’قبرکھودو ؛ کشادہ کھودواور اسے گہرا بناؤ ‘‘ (سنن ابو داؤد 3215 ؛ الترمذی 1713 ؛ الارواء 743) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی گہرائی کی کوئی حد منقول نہیں ۔ اس گہرائی کی حد میں اختلاف ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے قد کے برابر ہو؛ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: اس کی ناف تک ہو ۔اورایک قول سینے تک کا بھی ہے۔ یہ سبھی اقوال ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔ بس اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی بو باہر نہ آئے؛ اور درندوں اور کتوں وغیرہ کی پہنچ سے میت محفوظ ہو جائے۔ اور اس میں زمین کے نرم یا سخت ہونے کا بھی خیال رکھا جائے۔ ٭ ’’ اس میں قبلہ کی طرف لحد بنائی جائے‘‘ یعنی جب قبر کھود کر گہری کر لی جائے تو آخر میں نیچے قبلہ کی طرف لحد بنائی جائے۔ جس میں میت کو داخل کیا جائے۔ اسے لحد اس لیے کہتے ہیں کہ یہ قبر سے ایک سمت کو مائل ہوتی ہے۔ اور حدیث شریف میں آتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لحد (بغلی قبر) ہمارے لیے ہے ، اور شق (صندوقی قبر) دوسروں کے لیے ۔‘‘ (ابو داؤد : 3208 ؛ ترمذی 1045 ؛ نسائی 2009 ؛ احکام الجنائز ص 145؍ صحیح) ٭ ’’ میت کو لحد میں داہنے پہلو پر لٹایا جائے‘‘اس کے چہرہ کو قبلہ کی طرف موڑا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لے کر آج تک مسلمانوں کا اس پر عمل چلا آرہا ہے۔کبیرہ گناہوں والی حدیث میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :