کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 215
((ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا يَکْرَہُ )) (مسلم 2589) ’’ تمہارا اپنے بھائی کو ایسے یاد کرنا جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو۔‘‘[1] اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :  ﴿ وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ، ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ ، ۭ ﴾ [٤٩:١٢] ’’اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔‘‘ یہاں پر غیبت کرنے کو کسی مرے ہوئے شخص کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے؛ جس کا مقصد غیبت کی برائی اور اس کے بڑے خطرات کو واضح کرنا ہے اور یہ کہ ایسا کرنے میں مؤمنین کے لیے ایذا رسانی ہے؛ فرمان الٰہی ہے:  ﴿ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ، ﴾ [٣٣:٥٨] ’’ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) یذا دیں جو انہوں نے نہ کیا ہو ا تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔‘‘ پس مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو تکلیف اور اذیت دینے سے بچ کر رہے؛ خواہ وہ کسی بھی قسم کی اذیت ہو۔ خواہ وہ غیبت ہو یا کوئی دوسرا کام ۔  ’’الادب المفرد ‘‘ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے: ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !فلاں عورت رات کو نماز پڑھتی ہے، دن کو روزہ رکھتی ہے؛ نیکی کے کام اور صدقہ کرتی ہے؛ لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس میں کوئی خیر کی بات نہیں ؛ وہ اہل جہنم میں سے ہے۔‘‘ پھرپوچھا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت صرف فرض نمازپڑھتی ہے،اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے؛ لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستاتی۔‘‘ فرمایا:’’ وہ اہل جنت میں سے ہے۔‘‘ (الأدب المفرد 119؛ حاکم 7304 ؛ ابن حبان فی صحیحہ برقم 5764 ؛ وصححہ الألبانی فی الصحیحة 190۔  پس لوگوں کو زبان سے تکلیف دینا؛ غیبت؛ چغل خوری؛ ٹھٹھہ و مذاق ؛ ہنسی اڑانا یہ بہت بڑے ہلاکت خیز گناہ ہیں ۔  ٭ ’’شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اورچغل خوری ‘‘اس کا مطلب ہے : ’’ لوگوں میں باتیں پھیلانا ‘‘ ایک انسان کی بات
[1] یہ پوری حدیث اس طرح ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تمہارا اپنے بھائی کا وہ عیب ذکر کرنا جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو۔‘‘ آپ سے عرض کیا گیا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکیا خیال ہے کہ اگر واقعی وہ عیب میرے بھائی میں ہو جو میں کہوں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:’’ اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو پھر تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔‘‘