کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 212
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ )) قَالُوا: بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ۔ قَالَ:(( الْإِشْرَاکُ بِاللّٰهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ)) وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا؛ فَقَالَ :((أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ ))۔ قَالَ فَمَا زَالَ يُکَرِّرُہَا حَتَّی قُلْنَا لَيْتَہُ سَکَتَ)) (اس کی تخریج گزرچکی ہے) ’’ کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟۔‘‘لوگوں نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے بیٹھ گئے ؛ آپ تکیہ لگائےہوئے تھے:فرمایا:’’ سن لو جھوٹ بولنا‘‘ اور بار بار اس کو دہراتے رہے حتی کہ ہم نے کہا: کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجاتے۔‘‘یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر شفقت کی وجہ سے۔‘‘ جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا جرم ہے؛ کیونکہ ایسا کرنے سے حقوق ضائع ہوتے ہیں ؛ اور لوگوں کے اموال باطل ذرائع سے ہضم کئے جاتے ہیں اور بسا اوقات ایسا کرنے سے معصوم جانیں تک چلی جاتی ہیں ۔ جھوٹی گواہی دینے والا کئی وجوہات کی بنا پرظالم ٹھہرتا ہے:  ٭ وہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے ظالم ہے؛ اس کی گواہی غلط بیانی اور بہتان تراشی پر مبنی ہوتی ہے۔  ٭ وہ اس کے حق میں بھی ظالم ہے جس کے خلاف گواہی دی ہے۔ اس کی اس گواہی سے اس کا حق مارا گیا ہے۔  ٭ اس کے حق میں بھی ظالم ہے جس کے حق میں گواہی دی ہے؛ کیونکہ اس طرح سے وہ اس چیز کا مالک بن گیا جو در اصل اس کا حق نہیں تھی۔  ٭ مزید برآں وہ اموال کے متعلق امور میں بھی ظالم ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:  (( إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ )) (البخاری 1739ومسلم 1679) ’’ بےشک تمہارے خون اور تمہارے امول اور تمہاری عزتیں تم پر طرح حرام ہیں ۔‘‘ پس جھوٹی گواہی میں کئی اعتبار سے ظلم پایا جاتا ہے؛ اس لیے یہ بہت بڑا جرم ہے؛ اور اس کے بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں ؛ اورآخرت میں اس کے برے انجام کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ ٭ ’’شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اورجھوٹی قسم ‘‘یعنی جس کی وجہ سے ناحق لوگوں کے مال ہضم کئے جاتے ہیں ۔ یا پھر ناحق لوگوں کے اموال خرچ کروائے جاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: (( ثَلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُہُمْ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْہِمْ وَلَا يُزَکِّيہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)) و ذکر منہم .... (( وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ)) (مسلم 106) ’’تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک وصاف کرے گااور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘پھر ان کا ذکر کرتے