کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 207
اعمال کی تأثیر ہوتی ہے؛ اور اس سے جادو کردہ انسان کو نقصان پہنچنا ہے خواہ وہ بیماری ہو یا کوئی اور شکل۔  ٭ ’’جادو‘‘ سب سے بڑی اور خطرناک ترین برائی ہے۔جب کسی معاشرہ میں یہ برائی پھیل جاتی ہے ؛ تو اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے؛اور ان کے لئے سب سے بڑی مضر چیز بن جاتی ہے۔اور جس شہر یا ملک میں توحید کا نور اور روشنی کم ہو؛اوردعوت توحید اور اس کا بیان کمزور ہو وہاں پر جادو کی کثرت ہوتی ہے۔جب لوگ توحید اور صحیح عقیدہ سے جاہل ہوں گے؛تو وہاں پرجادو گروں کو پذیرائی ملے گی اور ان کی کثرت ہوگی۔ اور جب بھی توحید کا پرچم سر بلند ہوگا؛اوراس کے منارے روشن ہوں گے؛ اور دعوت توحید قائم و دائم ہوگی توجادو ٹوٹ جائے گا؛ بلکہ ختم ہو جائے گا؛ ان شاء اللہ ۔اس لیے لوگوں کو توحیدکے بیان اوروضاحت ؛استدلال کی اوراس کی ضد یعنی شرک سے لوگوں کو خبردارکرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔  ٭’’شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اور کسی ایسے نفس کی ناحق جان لینا جس کو اللہ نے حرام کیا ہو۔‘‘ فرمان الٰہی ہے:  ﴿ وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ [٢٥:٦٨] ’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے:  ﴿ وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہٗ جَہَنَّمُ ﴾ [٤:٩٣] ’’ اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی معصوم جان کو بلا وجہ قتل کرنا بہت بڑا اور انتہائی خطرناک کبیرہ گناہ ہے۔  بہت ساری احادیث مبارکہ میں اس کبیرہ گناہ کے خطرہ اور برائی کابیان وارد ہوا ہے۔اور یہ کہ انسان اس وقت تک وسعت اور خوشحالی میں رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہ بہائے۔ اور جب بھی انسان حرام خون بہاتا ہے؛ یعنی کسی بے گناہ شخص کو جان بوجھ کر بلا وجہ قتل کرتا ہے؛ تو مقتول بروز قیامت اس پر مدعی ہوگا۔ اور اس کے ساتھ ہی مقتول کے وارثوں کوبھی حق حاصل ہے؛ وہ چاہیں توبلا معاوضہ معاف کردیتے ہیں اورچاہیں تومعاوضہ (دیت) وصول کریں ؛ اور چاہیں تو وہ معاف نہ بھی کریں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مقتول کا حق بھی ہوتا ہے۔ مقتول تو چلا گیا؛ اب وہ اس دنیا میں باقی نہیں رہا۔ اب قیامت والے دن قصاص کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں بچے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے دین میں فراخی اور راحت میں رہتا ہے جب تک وہ کسی کو ناحق قتل نہ کرے۔ اگر کوئی انسان کسی کا مال چوری کر لے؛اور پھر توبہ کرنا چاہے؛ تو وہ مال اس کے حق داروں کو واپس کرسکتا ہے۔ حتی کہ اگروہ مر بھی جائے تو اس کے وارثوں کو مال دیا جاسکتا ہے ۔ گناہوں میں سے کوئی بھی گناہ ہو؛ گنہگار انسان اس سے اللہ کے حکم سے نجات حاصل کرسکتا ہے؛ سوائے قتل کے۔ کیونکہ اس میں حق دار کی روح تو قاتل کے ہاتھوں چلی گئی۔اب بروز قیامت قصاص کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ اس سے قتل