کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 204
سخت ترین سزائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کے مرتکب افراد کے لیے قیامت کے دن میں تیار کر رکھی ہیں ۔  ٭  فرمایا: ’’ سات ہلاکت خیز گناہ ‘‘اس جملہ میں اس معاملہ کا خوب اہتمام کیا گیاہے۔اسی لیے شروع میں بتایا کہ ایسے گناہ سات ہیں ؛ اگر بعد میں صرف چھ بتائے جاتے تو دل میں یہ بات آتی کہ ایک گناہ رہ گیا ہے۔ اور اگر شروع میں سات نہ کہا ہوتا تو شائد کے بسا اوقات بیان کرنے میں کئی گناہ رہ جاتے۔ اور اس طرف آپ کی توجہ ہی نہ جاتی۔ تو اس حدیث کے شروع میں عدد کے ذکر کرنے کا یہی فائدہ ہے۔ بلکہ بہت ساری احادیث میں ایسے ہی ہے ۔ جس سے علم کے ضبط اور اتقان میں مدد ملتی ہے۔  پھر یہ کہ کبیرہ گناہ صرف اس تعداد میں محصور نہیں ہیں ۔بلکہ دوسری احادیث میں ایسی نصوص ہیں جن میں دوسرے گناہوں کو بھی کبیرہ شمار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث نبوی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ )) قالوا:بلی یارسول اللّٰہ!قال: ((الْإِشْرَاکُ بِاللّٰهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَشَہَادَةُ الزُّورِ)) (البخاری 2654 مسلم 87) ’’ کیا میں تمہیں گناہوں میں سب سے بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ! ؟صحابہ نے عرض کی: ضرور یا رسول اللہ ! تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی ان سات گناہوں میں سے نہیں ہیں جن کا تذکرہ پہلی حدیث میں ہوا؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی نصوص کی روشنی میں یہ بھی کبیرہ گناہ ہیں ۔ پس ان کبیرہ گناہوں کی تعداد سات سے بہت زیادہ ہے۔ بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی روشنی میں ان کی تعدادستر کے قریب ہے۔ مزید برآں یہ بھی محدود گنتی نہیں ہے؛ اور نہ ہی اس تعداد کی کوئی شرط یا قید ہے۔ (عبدالرزاق 19702 ؛ شعب الایمان 290)۔ اس باب میں اہم ترین چیز اس ضابطہ کی معرفت حاصل کرنا ہے جس کی وجہ سے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں تمیز ہوتی ہے۔ہر وہ عمل جس کے شروع میں لعنت کی گئی ہو؛ یا جس پر جنت سے محرومی کی نوید آئی ہو؛ یا پھر جہنم میں جانے کی وعید ہو؛ یا اس پر اللہ کی ناراضگی اور سزا کا ذکر ہو؛ یاہر وہ عمل جس کے کرنے والے پر لعنت کی گئی ہو؛یا اس سے ایمان کی نفی کی گئی ہو ؛یاارشاد فرمایا ہو کہ ایسا کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے؛ تو یہ تمام نشانیاں اس پردلالت کرتی ہیں کہ یہ بڑا گناہ ہے۔ اوراس کے ساتھ ہی بعض گناہوں کو نام لے کر کبیرہ کہا گیا ہے۔  سب سے بڑا خطرناک اور نقصان دہ کبیرہ گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور جہاں اوامر کا باب ہے تو وہاں پر سب سے پہلے سب سے اہم ترین چیز توحید کا ذکر کیا گیا ہے۔اور نواہی کے باب میں سب سے خطرناک کو پہلے ذکر کیا گیا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا