کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 20
کوشش کرو)۔‘‘ [البخاری 1417 ؛ صحیح مسلم 1016 ]
اس لیے کہ بروز قیامت وزن چیونٹی کے وزن کے برابر ہوں گے۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ :....پس جس نے ذرہ بھر بھی نیکی کے اعمال کئے ہوں گے؛وہ انہیں دیکھ لے گا۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ :....پس جس نے ذرہ بھر بھی برائی کے اعمال کئے ہوں گے؛ وہ اس برائی کو دیکھ لے گا۔یعنی وہ اپنے اعمال کی پوری پوری سزا کا مستحق ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں خبردار کیا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ جیسا کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے؛ فرمایا:
’’ حقیر و معمولی گناہوں سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ ہو گا ۔‘‘
[ابن ماجہ 4243؛ نسائی ؍الکبری11811]
بلکہ انسان پر واجب ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے ہر قسم کے گناہ سے بچ کر رہے۔ اگر ان میں سے کوئی گناہ اس سے سر زد ہوجائے تو اسے چاہیے کہ فوراً توبہ کرنے میں اور اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرنے میں جلدی کرے۔
سورت عادیات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
﴿ وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا ، فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا ، فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا ، َاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا ، فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَكَنُوْدٌ ، وَاِنَّہٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَہِيْدٌ ، وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ، اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُوْرِ ، وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُوْرِ ، اِنَّ رَبَّہُمْ بِہِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّخَبِيْرٌ ، ﴾
’’ دوڑتے ہانپتے گھوڑوں کی قسم۔جو مار کر آگ نکالتے ہیں ۔پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔پھر اس میں گرد اٹھاتے ہیں ۔پھر دشمن کی فوج میں جا گھستے ہیں ۔یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔بیشک وہ مال سے سخت محبت کرتاہے۔کیا وہ نہیں جانتا کہ جب قبروں والے باہر نکال لیے جائیں گے ۔اور دلوں کے بھید ظاہر کر دیئے جائیں گے ۔بےشک ان کا رب اس روز ان سے خوب واقف ہے۔‘‘
سورہ عادیات وہ عظیم الشان سورت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ان مخلوقات کی قسم اٹھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے جس چیز کی چاہیں قسم اٹھا سکتے ہیں ؛ جب کہ مخلوق کے لیے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کی قسم اٹھانا جائز نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی قسم کھائے ، ورنہ خاموش رہے ۔ ‘‘