کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 186
کے ساتھ وفاداری بھی ہے۔ انسان کے تمام حواس بھی امانت ہیں ۔ بروز قیامت اللہ ان کی بابت پوچھے گا۔ فرمایا:  ﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ ، ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا ، ﴾ [١٧:٣٦] ’’اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔‘‘ اور انسان کا مال اور اولاد بھی اس کے پاس امانت ہیں ؛ ان کے متعلق بھی بروز قیامت سوال ہوگا۔فرمان الٰہی ہے: ﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ، وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ ، ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ ، ﴾ [٨:٢٨] ’’ اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت کرو، اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد سب فتنہ ہے اور اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔‘‘ فتنہ:.... یعنی امتحان اور آزمائش کہ کیا اس نے اس مال اور اولاد سے متعلق امانت کو ادا کیا ہے یا نہیں ؟ ایک خیرخواہ مسلمان کا اخلاق یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس امانت کی نگہداشت اورخوب عمومی و خصوصی اہتمام کے ساتھ حفاظت کرے۔ ٭  ’’ پاک دا>منی‘‘: پاکدامنی حرام چیزوں اور گناہ اور فحاشی سے اجتناب کی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے۔ فرمایا: ﴿ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَہُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِہٖ ، ﴾ (النور 33) ’’ اور چاہیے کہ بچے رہیں وہ جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے حتی کہ اللہ اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ جس کے پاس نکاح کرنے کی گنجائش نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرے؛ اوراللہ تعالیٰ اطاعت گزاری میں اور تقوی کے حصول کے لیے حرام کاری سے دور رہے۔ اور ایسے ہی جس کے پاس مال نہ ہو؛ اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ کررہے؛ کوئی دے یا نہ دے۔ حدیث مبارک میں ہے:  ’’ جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔‘‘ (البخاری 1469 مسلم 1053 ) ٭ ’’ شرم و حیاء‘‘:حیاء مومن ایک عظیم الشان اخلاقی وصف ہے جس سے اس کی ذات مزین ہوتی ہے۔ جب مؤمن میں حیاء پیدا ہو جاتی ہے تو وہ ہر بری اورگھٹیا حرکت سے رک جاتا ہے اور اعلی اور فاضل اخلاق کو اپناتا ہے۔اس لیے حیاء سراسر خیر و بھلائی ہی ہے۔صرف خیر و بھلائی کا سبب ہے۔ جب انسان میں حیاء نہ رہے تو اس سے خیر و برکت ختم ہو جاتے ہیں اور اسے کوئی بھی برائی اور گناہ کرتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) (البخاری 6120)