کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 179
نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔ اور اصل طہارت کا باقی رہنا ہے۔ اور یہ حدیث مبارک کہ:  ’’ جو کوئی میت کو غسل دے اسے چاہیے کہ وہ خود بھی غسل کرے۔‘‘ (أحمد 7769 ؛ أبو داؤد 3161 ؛ ابن ماجہ 1463۔صحیح) شیخ رحمہ اللہ کی رائے میں یہ حدیث ضعیف ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری کئی احادیث ایسی ثابت ہیں جو میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کے مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ فرمایا:’’ البتہ اگر غسل دینے والے کاہاتھ میت کی شرمگاہ سے بغیر کسی حائل کے چھو جائے تو اس پر وضو کرنا واجب ہے‘ ‘۔:یعنی اب وضوء واجب ہونے کا سبب میت کو غسل دینا نہیں ؛ بلکہ اس کی شرمگاہ کو بلا رکاوٹ ؍حائل کے ہاتھ لگنا ہے۔ اوریہ پہلے گزر چکا ہے کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضوء کرنا واجب ہو جاتا ہے۔میت کو غسل دینے والے پر واجب ہوتا ہے کہ وہ بغیر حائل کے میت کی شرمگا کو ہاتھ نہ لگائے۔ کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے۔ ایسے ہی اس کی طرف دیکھنا بھی حرام ہے۔ پس یہ واجب ہوتا ہے کہ میت کی شرمگاہ پر کپڑا وغیرہ رکھ دیا جائے تاکہ اس پر نظر نہ پڑے؛ ایسے غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر بھی کپڑا چڑھا لے تاکہ ہاتھ براہ ِ راست (بلا حائل) اس کی شرمگاہ کو نہ لگے۔  ٭٭٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اسی طرح عورت کو چھو لینا بھی علماء کے صحیح تر قول کے مطابق مطلقاً ناقض وضو نہیں ہے، چاہے شہوت سے ہو یا بغیر شہوت کے، جب تک کہ اس سے کوئی چیز نہ نکلے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔‘‘ شرح:  شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس لیے کہ اصل وضوء کا اپنی حالت پر باقی رہنا ہے جب تک کہ کوئی صحیح اور واضح دلیل نہ ہو ۔اس مسئلہ میں کوئی ایسی صاف اور واضح دلیل نہیں ہےجو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عورت کو ہاتھ لگنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔اور اس لیے بھی کہ یہ عموم بلوی ہے؛ یعنی ہر گھر کا مسئلہ ہے۔اگر عورت کو چھونے سے وضوء ٹوٹتا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلہ کو کھول کر واضح الفاظ میں بیان فرماتے ۔ ٭٭٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جہاں تک سورہ نساء اور سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿اَوْ لٰمَسْتُم النِّسَآئَ﴾ ’’یا تم نے عورتوں کو چھو لیا ہو‘‘ کا تعلق ہے، تو علماء کے صحیح تر قول کے مطابق اس سے جماع مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سلف و خلف کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ واللہ ولی التوفیق!‘‘ شرح :  امام طبری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول اورسلف کی ایک جماعت کااجماع نقل کیا ہے۔ اور اس مسئلہ