کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 175
ہوا ہے۔یہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ ٹخنوں کا دھونا اس میں داخل ہے۔  پنجم: ....اعمال وضوء میں ترتیب؛اس فریضہ کو اس طرح ادا کیا جائے کہ پہلے چہرہ دھویا جائے؛ پھر دونوں ہاتھ پھر سر کا مسح پھر پاؤں ۔یعنی ان کی ترتیب ویسے ہی باقی رہے جیسے آیت کریمہ میں وارد ہوئی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی ترتیب سے ذکر کیا ہے۔ اس لیے بھی کہ مسح والے عضو یعنی سر کو دھوئے جانے والے اعضاء کے درمیان میں ذکر کیا ہے۔ اور اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بھی ہے۔ جن حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضوء کا طریقہ نقل کیا ہے؛ انہوں نے اسی ترتیب کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ششم:.... موالات:[لگاتار]اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مذکورہ اعضاء کے دھونے میں فاصلہ نہ ہو؛یعنی دوسراعضو دھونے میں اتنی دیر نہ کی جائے کہ پہلا عضو خشک ہو جائے۔ بلکہ فوراً ہی ایک کے بعد ایک کرکے دھویا جائے ؛ اور اس کے درمیان میں کوئی وقفہ نہ آئے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ایسے ہی اپنے اعضاء دھویا کرتے تھے؛ اس کے درمیان میں فاصلہ نہیں دیتے تھے۔ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ چہرہ، دونوں ہاتھ اور دونوں پیروں کا تین تین بار دھونا مستحب ہے، اسی طرح تین بار کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی مستحب ہے۔ لیکن فرض صرف ایک بار کرنا ہے‘‘: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔‘‘(البخاری 157) حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اعضاء کو دو دو بار دھویا۔‘‘ (البخاری 158 مسلم 235) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا گیاکہ :’’ انہوں نے پانی کا ایک برتن مانگا، اولا اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈالا، پھر کلی کی اور ناک صاف کی، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میرے اس وضو کے مثل وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز خلوص نیت سے پڑھے، تو اس سے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ابراہیم، صالح بن کیسان، ابن شہاب، عروہ، حمران کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) نے وضو کیا تو فرمایا اگر ایک آیت نہ ہوتی تو میں تم سے یہ حدیث بیان نہ کرتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جو شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھتا ہے تو اس وضو اور نماز کے درمیان گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘(متفق علیہ ) تین تین بار دھونا زیادہ اکمل ہے۔  تین بار سے آگے تجاوز نہ کیا جائے۔ جس نے ایسا کیا ؛ اس نے برا کیا اور ظلم کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں : ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھ رہا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین بار اعضاء وضو دھو کر کے دکھائے ، پھر فرمایا : ’’ اسی طرح وضو کرنا ہے ، جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا ، وہ حد سے آگے بڑھا اور اس نے ظلم کیا ۔‘‘