کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 17
نَسْتَعِيْنُ ، ﴾کہنے میں ہر قسم کی قوت و طاقت سے برأت ہے۔  اِيَّاكَ نَعْبُدُ ﴾:....میں کلمہ لا إلہ إلا اللّٰہ کے حقائق پائے جاتے ہیں ؛ جب کہ ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ، ﴾ میں لاحول ولا قوة إلا باللّٰہ کے معانی پائے جاتے ہیں ۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ :....شرک اور ریاکاري سے اخلاص ہے؛ جبکہ ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ، ﴾:خود پسندی اور تکبر سےنجات ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ، :.... یعنی اے اللہ ! ہمیں راہ دیکھا؛ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس صراط مستقیم پر چل سکیں اور اس کی اتباع کرسکیں ۔ فرمان الٰہی ہے:  ﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ، وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ ﴾ [الانعام] ’’اوربیشک یہ میرا سیدھا رستہ ہے پس تم اسی پر چلنا اور اور راہوں پر نہ چلنا کہ اللہ کی راہ سے الگ ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔  ﴿ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ﴾:جو کہ انبیاء کرام علیہم السلام ؛ صدیقین ؛ شہداء اور صالحین کی جماعت ہیں ؛ اور یہی حضرات بہترین ساتھی (اورقابل اتباع لوگ ) ہیں ۔جنہوں نے علم نافع اور عمل صالح کو جمع کیا تھا۔ بیشک حقیقی نعمت اس پر ہوتی ہے جو اہل علم ہو؛ اور اسے عمل کی توفیق دی گئی ہو۔  ﴿ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ ﴾:اس سے مراد یہودی اور وہ لوگ ہیں جو ان کی راہ پر چلتے ہیں ۔جو حق بات تو جانتے ہیں مگر اس کے مطابق عمل نہیں کرتے۔  ﴿ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ، ﴾:اس سے مراد عیسائی اور ان کی راہوں پر چلنے والے ہیں ؛ جو بغیر علم و بصیرت کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔  یہاں پر مقصود علمائے سوء اورگمراہ عابدوں (ملنگوں اورفقیروں ) سے ڈرانا اور خبردار کرنا ہے۔ جیساکہ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ہمارے علماء میں سے جو کوئی گمراہ ہو جاتا ہے اس میں یہود کی مشابہت پائی جاتی ہے؛ اور جو کوئی ہمارے عابدوں میں سے گمراہ ہو تا ہے اس میں عیسائیوں کی مشابہت پائی جاتی ہے۔(تفسیر ابن کثیر4؍138) اس سورت کو سمجھنے میں سب سے بڑی مددگار وہ حدیث ہے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ نماز یعنی سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ کہتا ہے:﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری حمد بیان کی ۔اور جب وہ کہتا ہے:﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، ﴾ تواللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ میرے