کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 163
’’ اے میرے اللہ تیرے ہی لئے حمد ہے، تو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیانی چیزوں کا نگران ہے، تیری ہی لئے حمد ہے تیرے ہی لئے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں پر حکومت ہے، تیرے ہی لئے حمد ہے تو آسمان اور زمین کی روشنی ہے، تیرے ہی لئے حمد ہے تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے۔ تیرا قول حق ہے جنت حق ہے، جہنم حق ہے، تمام نبی حق ہیں اور محمد حق ہیں اور قیامت حق ہے، اے میرے اللہ میں نے اپنی گردن تیرے لئے جھکا دی اور میں تجھ پر ایمان لایا تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، تیری طرف میں متوجہ ہوا، تیری ہی مدد سے میں نے جھگڑا کیا اور تیری ہی طرف میں نے اپنا مقدمہ پیش کیا، میرے اگلے پچھلے اور ظاہری اور چھپے ہوئے گناہوں کو بخش دے تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ؛ او رتیرے بغیر کوئی توفیق اور قوت نہیں۔‘‘ استفتاح کی یہ دعا اپنے کثیر جملوں کے ساتھ استفتاح کی ان طویل ترین دعاؤوں میں سے ہےجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور ہیں ۔ آپ تہجد کی نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ یہ ایک جامع استفتاح ہے۔ بلکہ یہ استفتاح عقیدہ اوراصول دین کے اہم ترین مسائل پر مشتمل ہے۔مسلمان کو چاہیے کہ اس دعا کو یاد کرے؛ اور اپنی نمازیں (خصوصاً تہجد) اس دعا سے شروع کرنے کا اہتمام کرے۔ اس میں سب سے اہم ترین بات ایمان کی تجدید اور دل کی تقویت ہے؛ اور یہی وہ مقصد شرعی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور دعاؤں میں مطلوب ہوتا ہے۔  ٭٭٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ نماز کی سنتوں میں سے ’’ حالتِ قیام میں ، رکوع سے پہلے ہو یا رکوع کے بعد، دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر سینہ کے اوپر رکھنا‘‘یعنی رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ باندھے۔ مصنف حفظہ اللہ نے اس مسئلہ میں ایک علیحدہ کتابچہ بھی تحریر فرمایا ہے؛ جس کا نام ہے: ’’ تمام الخشوع فی وضع الیدین علی الصدر بعد الرکوع ۔‘‘ اور اس کتابچہ انہوں نے اپنے مؤقف پر دلائل پیش کئے ہیں ۔  اصل میں یہ کیفیت کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے؛ یہ ذلت و انکساری اور رب سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے عاجزی کی کیفیت ہوتی ہے؛ جس میں دل ایک نکتہ پر جمع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہاتھوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے؛ یا لٹکا دیا جائے تو بسا اوقات انسان ہاتھوں کو حرکت دینے لگ جائے؛ یا کوئی اور فعل صادر ہوجائے۔ لیکن جب وہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر پکڑ لیتا ہے تو اس میں سکون اور طمانیت ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی اللہ کی بارگاہ میں ذلت و انکساری بھی ہوتی ہے۔ پس کھڑا ہونے کی یہ حالت رب کے سامنے خشوع و خضوع اور تذلل کی حالت ہوتی ہے۔ بھلے انسان ہاتھ کو کلائی پر رکھے یا اس سے پیچھے بازو پر۔ ان میں سے ہر ایک عمل سنت سے ثابت ہے۔ جیسے شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر ہاتھ کو کلائی پر اس طرح رکھے کہ انگلیاں بازو پر ہوں تو یہ افضل ہے؛ اور اگر بازو پر رکھ لے تو یہ بھی سنت ہے۔ ٭٭٭