کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 158
محذوف موصوف کی صفت ہے۔ یعنی تمام پاکیزہ کلمات؛ افعال ؛ اور صفات اور اسماء صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہیں ۔ وہ پاک ہے؛ اس کے تمام افعال پاک ہیں ؛ اوراس کی صفات سب سے پاکیزہ چیز ہیں ۔ اس کے اسماء سب سےپاکیزہ اسماء ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ایک اسم گرامی ’’الطیب ‘‘بھی ہے۔اور اس سے صرف پاک افعال ہی صادر ہوتے ہیں ۔ اور صرف پاکیزہ اعمال ہی اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔اور پاکیزہ اشیاء کو اس کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس کے افعال پاک ہیں ۔ اور پاک اعمال کو اس کی جانب عروج نصیب ہوتا ہے۔ پس ہر پاکیزہ چیز اسی کے لیے ہے؛ اور اسی کی طرف منسوب ہے؛اور اسی سے صادر ہوتی ہے؛اور اسی کی طرف اس کی انتہاء ہوتی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ ’’طیب ‘‘ پاک ہے؛ اور صرف پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔‘‘
اور مریض پردم کی حدیث جسے امام ابو داؤد حفظہ اللہ نے روایت کیا ہے؛ اس میں ہے:
(( أنت رب الطیبین)) (أبو داؤد 3892 ؍ ضعفہ الألبانی ؛ ضعیف الجامع 5422)
’’ بیشک تو پاکبازوں کا رب ہے۔‘‘
اور اس کے پڑوس میں اس کے بندوں میں سے پاک لوگ ہی ہوں گے۔ جیسا کہ اہل جنت سے کہا جائے گا:
﴿ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِيْنَ ﴾(الزمر 73)
’’ تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت اور تقدیر میں یہ فیصلہ کردیا ہے کہ پاک چیزیں پاک لوگوں کے لیے ہیں ۔پس جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ علی الاطلاق سب سے پاک ہیں ؛ تو تمام پاکیزہ افعال؛ کلمات اورصفات اور اسماء سب کے سب اللہ کے لیے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ان کا مستحق نہیں ۔ بلکہ کوئی بھی چیزاس کے پاک کئے بغیر پاک نہیں ہوسکتی۔پس اس کے علاوہ ہر ایک چیز کی پاکیزگی اس کے پاک ہونے کے اثرات و نتائج میں سے ہے۔ پس یہ پاکیزہ سلام بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی روا ہوسکتا ہے کسی دوسرے کے لیے نہیں ۔
جب سلام بھی پیغام خیر سگالی کی اقسام میں سے ایک ہے؛ تو مسلمان جس کو سلام کرتا ہے؛ دراصل اسے دعائیں دیتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ان بندوں کے لیے سلامتی طلب کرتا ہے جنہیں اس نے اپنی عبادت کے لیے خاص کر لیا ہے؛ اور انہیں اپنی ذات کے لیے چن لیا ہے۔ اور یہ مشروع ٹھہرایا ہے کہ اس عمل کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ اورمحبوب اور قریب ترین ہستی پرسلام سے ہو؛پس اس کی ابتداء شہادتین سے ہوتی ہے جو کہ اسلام کی کنجی ہیں ۔ پس یہ مشروع ٹھہرایا کہ نمازکا اختتام اس پر ہو۔ اس میں تکبیرو تحمید اور ثناء و تمجید اور توحید الوہیت اور توحید ربوبیت کا اقرار داخل ہوتے ہیں ۔ آخر میں اس کا اختتام لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کے اقرار پر کیا گیا۔
اگر نمازدو رکعت سے زائد ہو تو پھر نماز کے درمیان میں بھی یہ سلام مشروع کیا گیا ہے۔اور اس کے لیے دو سجدوں