کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 157
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی ’’ الغفور ‘‘ اور ’’ الغفار ‘‘ کے مدلول پر ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ یعنی وہ ہستی جو تمام گناہوں کو بخش دے گی؛ اس کے سامنے کوئی گناہ اتنا بڑا نہیں جسے وہ بخش نہ دے۔
(( فَاغْفِرْلِیْ ))’’ لہٰذا مجھے معاف کر دے ‘‘اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم ؛اور اپنے رب کے عام فضل اور گناہوں کی مغفرت کا اقرار کرنے کے بعد مغفرت طلب کی جارہی ہے؛ : (( فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ ))’’ لہٰذا اپنی مہربانی سے مجھے معاف کر دے۔‘‘یعنی مجھ پر اپنا فضل و احسان فرما دے؛ جو تیری طرف سے اس پیکر عجز و نیاز پر فضل و کرم اور احسان و انعام ہوگا۔
(( وَ ارْحَمْنِیْ)) اور مجھ پر رحم فرما ؛ اس میں اللہ تعالیٰ سے کامیابی اور کامرانی پانے اور اس رحمت کے حصول کی دعا ہے جو اس کے اہل ایمان بندوں کے ساتھ خاص ہے ۔
(( اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ))’’ بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے‘‘یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوعظیم اور مبارک اسمائے گرامی (( الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ))’کے وسیلہ کی پیشی ہے۔ اسم(( الْغَفُوْرُ )): میں اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت کا اثبات ہے؛ اوراسم گرامی ((الرَّحِیْمُ))’میں اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحمت کا اثبات ہے۔اور اس دعا کو ان دو اسمائے گرامی پرختم کرنے میں مطلوب کی بہترین رعایت ہے ؛اس لیے کہ مطلوب رحمت اور مغفرت ہے۔
ان دو کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کے دوسرے صیغے ؍ الفاظ بھی ثابت ہیں ؛ جو کہ نماز کے اختتام پر سلام سے قبل دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔
٭٭٭
شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ پہلے تشہد میں شہادتین کے بعد کھڑا ہو جائے ‘‘ یعنی التحیات میں جب ’’ (( اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ))۔پڑھ لے تو تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔ایسا ظہر ؛ عصر مغرب اور عشاء میں ہوگا۔ اور اگر وہ پہلے تشہد میں بیٹھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے؛ تو عموم احادیث کی روشنی میں ایسا کرنا افضل ہے۔ درود ابراہیمی پڑھنے کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
٭ یہاں پر ہم ایک وقفہ لیں گے تاکہ علامہ ابن قیم حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الصلاة‘‘ میں تشہد ؛ درود ابراہیمی اور ان چاروں تعوذات کے متعلق جو قیمتی کلام ذکر کیا ہے؛ اسے یہاں نقل کرسکیں ۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ التحیات انسان کی طرف سے اس زندہ ہستی کی بارگاہ میں سلام ہے جس کو موت نہیں آنے والی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام مخلوق سے بڑھ کر اس سلام کے حق دار ہیں ۔ یہ التحیات ’’حیات ؛ بقاء اور دوام ‘‘کو مستلزم ہے۔ اس التحیات کا مستحق اس زندہ اورباقی رہنے والی ہستی کے علاوہ کوئی نہیں ؛ نہ ہی اسے موت آئے گی؛ نہ ہی اس کی بادشاہی کو زوال آئے گا۔ ایسے ہی ’’الصلوات ‘‘بھی ہے۔ اس صلات کا مستحق بھی اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ کسی دوسرے کے لیے نماز(صلات)پڑھنا بہت بڑا کفر و شرک ہے۔اور ایسے ہی ’’الطیبات ‘‘کا لفظ