کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 156
تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خاص مدد ہے۔ پس نماز سے سلام قبل یہ بہت ہی مناسب موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق طلب کریں ؛ اور اس کی بارگاہ میں اپنی حاجت مندی اور نیاز مندی کا اظہار کریں جس نے نماز کی ادائیگی پر آپ کی مدد کی ؛ اور اب قریب ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوں تو وہ اپنا ذکر اورشکر بجا لانے اور بہترین عبادت ادا کرنے پر آپ کی مددکرے۔ اس میں دوسری نماز کے لیے آپ کی مدد بھی شامل ہے۔ جب آپ ایک نماز پڑھ لیں تو دوسری کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں ۔ دوم :.... ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ،فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ))’’یا اللہ میں نے اپنے نفس پرظلم کیابہت ظلم؛ اور تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرتا، لہٰذا اپنی مہربانی سے مجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما ؛ بے شک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یہ دعا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ جس میں ہے:  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جسے میں نماز میں پڑھا کروں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے : امجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں اور اپنے گھر میں مانگا کروں ۔‘‘ متفق عليه: رواه البخاري في الدعوات (6326)، ومسلم في الذكر والدعاء (2705). یہ امت کے سب سے بڑے صدیق اللہ کے نبی سے ایسی دعا سکھانے کا مطالبہ کررہے ہیں جو آپ نماز میں بھی اللہ سے مانگیں اور اپنے گھر میں بھی ۔حالانکہ آپ کے لیے کئی دوسری دعاؤں کا کرنا بھی ممکن تھا۔ لیکن اس راہ میں رکاوٹ صرف یہ چاہت تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سکھائی ہوئی دعاکا اہتمام کرنا چاہتے تھے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا ))’’یا اللہ میں نے اپنے نفس پرظلم کیابہت ظلم ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق امت کی اس دعا کی طرف رہنمائی فرمائی ہے؛ کہ اس کا اہتمام کریں ۔ آپ اس امت کے بہترین انسان اور انبیائے کراما علیہم السلام کے تمام لوگوں سے افضل ترین ہستی ہیں ۔ جب امت کے صدیق اکبر کو ان کی فضیلت اور حسن تعبد اور ایمانی قوت کے باوجود اس طرف رہنمائی کی ہے کہ آپ یوں کہیں : ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا ))’’تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا مقام مرتبہ آپ سے درجہ ہا کم تر ہے۔ اور جو کوئی آپ کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع کے ہزارویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا ؟  جان پر ظلم :جیسے یہ گناہ کو شامل ہے؛ ایسے ہی عبادت میں کوتاہی اور اس کی عدم تکمیل کو بھی شامل ہے۔  یہ کہنا: (( وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ ))’’اور تیرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرتا۔‘‘اس میں یہ بیان ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی گناہ معاف کرسکتے ہیں ۔ان کے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ؛ فرمان الٰہی ہے:  ﴿ وَّ مَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ﴾ (آل عمران 135) ’’ اور کون ہے جو گناہوں کو معاف کرے سوائے تیرے۔‘‘