کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 154
رہتا ہے۔ صحیح حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے ارشاد فرمایا:  ’’ فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو ؛ ان میں جو ظاہری ہیں ان سے بھی اور پوشیدہ سے بھی۔‘‘ (مسلم 2867) انسان کواس دعاکا اہتمام کرناچاہیے ۔اورزندگی اور موت کے تمام فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔ موت کے وقت کا فتنہ زیادہ سخت اور خطرناک ہوتاہے۔ زندگی کے فتنہ میں تو اس کے بعد بھی کچھ نہ کچھ زندگی ہوتی ہے جس میں انسان اس فتنہ سے نجات حاصل کرکے اس کا ازالہ کرسکتا ہے؛ لیکن موت کے فتنہ کے بعد موت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ؛ اسی لیے اسے موت کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ یہ فتنہ قرب موت کے وقت انسان کے سامنے پیش آتا ہے۔ چہارم:....شیخ رحمہ اللہ کا فرمان گرامی :’’مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگے‘‘: یہ سب سے سخت ترین فتنہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے وقوع اور اس کے قریب تر ہونے کی نشانی بنایا ہے۔بلا شک وشبہ دجال کا خروج آخری زمانہ میں ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی نبی ایسا مبعوث نہیں کیا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنہ سے خبردار نہ کیا ہو؛ اس سے اس فتنہ کا خطرہ واضح ہوتا ہے۔ہمارے لیے مشروع یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے طلبگار رہیں ۔ اورخصوصاً نمازوں کے آخر میں سلام سے قبل دجال کے اس بہت بڑے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں ۔اس دجال کا نام ’’مسیح ‘‘ کی وجہ اس کی دائیں آنکھ کاپھوڑا ہواہونا ہے۔گویا کہ وہ انگور کا دانہ ہو۔ اور ’’دجال ‘‘کہنے کی وجہ اس کے تمام معاملات کا دجل و فریب اور جھوٹ پر قائم ہونا ہے۔ اس کا سب سے بڑا دجل اور بہت بڑا جھوٹ یہ ہوگا کہ وہ اپنے بارے میں رب ہونے کا دعوی کرے گا۔ اورپھر اپنے اس دعوی پر کچھ خلاف عادت امور کو بطور دلیل کے پیش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں ان امور کو جاری کریں گے ۔ اصل میں اس میں لوگوں کا امتحان اور آزمائش ہوگی۔ وہ آسمان سے کہے گا: بارش برساؤ‘‘ تو بارش ہوجائے گی۔وہ زمین سے کہے گا: غلہ پیدا کرو تو زمین نباتات اگل دے گی۔اور کسی شہر سے کہے گا: ’’ اپنے خزانے نکال دے؛ تو اس کے خزانے اس دجال کے پیچھے چل پڑیں گے ۔یہ تمام امور خارق ؍خلاف عادت اور عقل کو حیران کردینے والے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خبردار کیا ہے کہ جب دجال کا خروج ہو تو کوئی اس جگہ کے قریب بھی نہ جائے جہاں پر وہ موجود ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’ جو کوئی دجال کے بارے میں سنے تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے دور رہے۔‘‘(أحمد 19875؛ أبو داؤد 4319 صحیح مسلمان کو چاہیے کہ وہ دجال کے فتنے سے اہتمام کے ساتھ پناہ مانگتے رہا کرے۔  ٭ فرمایا: ’’پھر جو دعا پسند ہو پڑھے اور بالخصوص ماثورہ دعائیں ‘‘اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:   ’’پھر جو دعا پسند ہو کرے۔‘‘ (البخاری 835 ؛ مسلم 402) یہ دعا کرنے کے لیےبہت ہی بہترین اور مناسب موقع ہے۔التحیات اور درود و السلام اور ان وسائل کے بعد اب آپ کے سامنے صرف دعا ہی رہ گئی ہے۔انسان کو سلام پھیرنے میں جلدی نہ کرنا چاہیے۔بلکہ خصوصی طورپر اللہ تعالیٰ کی متوجہ ہوکر اس سے مانگے اور دعا کرے۔اس چیزسے بہت سارے لوگ غفلت کا شکار ہیں۔ آپ دیکھیں گے کتنے ہی