کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 150
پر رحم فرما، بے شک تو ہی معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘ البتہ پہلے تشہد میں شہادتین کے بعد ظہر، عصر، مغرب اور عشاء میں تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے گا، اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی پڑھے تو افضل ہے، کیونکہ اس بارے میں وارد احادیث عام ہیں ، پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو۔ شرح: یہ درس شیخ رحمہ اللہ تشہد اور درود ابراہیمی اور ان کے بعد کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور دعاؤں کے بارے میں لائے ہیں ؛کہ ان کے بعد انسان کو نماز پوری کرکے سلام سے پہلے کیا کہنا چاہیے۔بیشک تشہد اور درود ابراہیمی کے یہ الفاظ اور ان چارچار چیزوں سے پناہ مانگنا جن کا ذکر آئے گا؛ یہ اہم ترین امور ہیں ؛ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان الفاظ کے سیکھنے کا حریص ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ؛ اور پھر ان کے معانی کو اچھی طرح سے سمجھے۔ التحیات کے جو الفاظ مؤلف رحمہ اللہ نے یہاں نقل کئے ہیں ؛ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہوئے ہیں ؛ اس کے علاوہ التحیات کے دیگر الفاظ بھی ہیں ؛ جنہیں علماء نے ذکر کیا ہے؛ لیکن اس کے صحیح ترین الفاظ یہی ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہوئے ہیں اور مصنف نے یہاں پر ذکر کئے ہیں ۔  مسلمان کو چاہیے کہ وہ ماثور تشہد سیکھے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشہد کے یہ الفاظ آپ کواس حالت میں سکھائے کہ آپ کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں میں تھا؛ اور اس طرح سکھائے جیسے قرآن کی سورت سکھائی جاتی ہے۔ اس میں کمال اہتمام اور حرص کی انتہاء ہے۔ یہ ضرور ی ہے کہ تشہد کے الفاظ کو انتہائی باریک بینی کے ساتھ ایسے ہی یاد کیا جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔بعض عوام الناس كکی زبانوں پر بسا اوقات کچھ اضافی کلمات یا حروف جاری ہو جاتے ہیں ؛ یا کچھ حروف کم ہو جاتے ہیں یاپھر اعراب کے میں فرق آجاتا ہے اور معانی بدل جاتے ہیں ۔  تشہد یہ ہے کہ انسان کہے:((اَلتَّحْیَاتُ لِلّٰہِ ))۔تحیات سے مراد تعظیمی کام ہیں ؛جیسے : رکوع؛ سجدہ ؛ تذلل؛ انکساری ؛ یہ تمام امور صرف اللہ کے لیے ہیں ۔ صرف وہی ان کا مستحق ہے؛ کوئی دوسرا نہیں ۔ فرمان الٰہی ہے:  ﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ ﴾(الحج 77) ’’اے ایمان والو! تم رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو‘‘. یہ تمام امور صرف اللہ کے لیے ہیں ؛ ان میں سے کسی بھی چیز میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔اور نہ ہی کسی عبادت کواس کے سوا کسی دوسرے کے لیے بجا لانا جائز ہے۔ (( وَالصَّلَوَاتُ))۔یعنی دعائیں ۔صلاة : لغت میں دعا کو کہتے ہیں ۔اوردعا صرف اللہ سے کی جاسکتی ہے؛ اس کے علاوہ کسی کو نہیں پکارا جاسکتا۔اور نہ ہی کسی کے پاس التجاء کی جاسکتی ہے؛ اور نہ ہی سوال میں غیر کی طرف توجہ کی جاسکتی