کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 145
وَالرُّكْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ ))۔(البخاری 812 ؛ مسلم 490)
’’ مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔‘‘
ان اعضاء پر اچھی طرح سے سجدہ کرنا ضروری ہے تاکہ پورے جسم کو سجدہ میں اس کا حصہ مل سکے۔ وگرنہ اس کی نماز درست نہ ہوگی۔ جیسا کہ بعض نمازی کرتے ہیں ۔آپ دیکھیں گے کہ وہ سجدہ کے شروع سے آخر تک ایک پاؤں کے ساتھ دوسرے پاؤں کی خارش کر رہے ہوتے ہیں ۔ (ان کا پاؤں زمین پر لگتا ہی نہیں )؛ حتی کہ سجدہ یونہی پورا کرلیتے ہیں ۔ ایسے انسان کا سجدہ سات اعضاء پر نہیں ہوتا۔
رکن ہفتم:.... سجدہ سے سر اٹھانا: اصلاح نماز والی حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ پھر سر اٹھا اور اچھی طرح اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا ‘‘ (البخاری 757 مسلم 398)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کرنا لازمی ہے ؛ کیونکہ اسے بیانِ ارکان کے سیاق میں بیان کیا جارہا ہے۔
رکن ھشتم :....’’ دو سجدوں کے درمیان میں بیٹھنا۔‘‘(اسے جلسہ کہتے ہیں )یہ بھی نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جب پہلے سجدہ سے سر اٹھائے تو بیٹھ جائے۔اس کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ انسان کو اطمینان حاصل ہو جائے۔ یعنی اس کے بدن میں اطمینان اورٹھہراؤ آجائے۔ جب وہ اطمینان سے بیٹھ جائے تو اب دوسرا سجدہ کرے۔ جو کوئی اچھی طرح بیٹھنے سے قبل ہی دوسرے سجدہ میں چلا جائے تو وہ ایک رکن ترک کردیتا ہے؛ اور اس کی نماز درست نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
’’ پھر سر اٹھا اور اچھی طرح اطمینان کے ساتھ بیٹھ جا ‘‘ (البخاری 757 مسلم 398)
یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں کسی قدر تکرار پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مؤلف نے سجدہ سے سر اٹھانے اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا ذکر کیا ہے؛ یہاں پر صرف ایک بات کا ذکر کردینا ہی کافی تھا؛ خصوصاً جب کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کسی ایسی چیز کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اور یہ خصوصی ذکر سجدہ سے سر اٹھانے کا اس لیے ہے تاکہ دو سجدوں کے مابین فرق ہو سکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا ایک علیحدہ اور زیادہ چیز ہے۔ پس ایسے سر اٹھانا لازمی ہے کہ دو سجدوں کے مابین فرق ہوسکے؍ اوردو سجدوں کے درمیان بیٹھنا بھی لازمی ہے؛ کیونکہ یہ جلسہ نماز کے ارکان میں سے ایک مستقل رکن ہے۔ اسی لیے انہیں دو علیحدہ علیحدہ ارکان بھی شمار کیا گیا ہے۔
رکن نہم :.... ’’ ان مذکورہ بالا تمام افعال کو اطمینان کے ساتھ ادا کرنا۔‘‘ اصلاح نماز والی حدیث میں گزرا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں اور رکوع سے سر اٹھانے میں ؛ اور سجدوں میں اور سجدوں سے سر اٹھانے میں ؛اطمینان کا ذکر کیا ؛ بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’ اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کر۔‘‘ یعنی بندے سے مطلوب یہ ہے کہ وہ پوری نماز کو اطمینان کے ساتھ ادا کرے۔‘‘